پاکستان میں ایک اور صحافی اسد طور کو نامعلوم افراد نے مبینہ طور پر گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ صحافی پر تشدد کے واقعے کے بعد حکومت، سیاسی جماعتوں اور دیگر حلقوں کی جانب سے مذمتی بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔
صحافی اور بلاگر اسد طور اسلام آباد کے ایک اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر ہیں، جہاں، اطلاعات کے مطابق، منگل کی شب تقریباً 11 بجے تین نامعلوم افراد نے انہیں فلیٹ میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا۔
ادھر اسد طور پر حملہ کرنے والے مبینہ تینوں افراد کی فلیٹ میں موجودگی کی ایک سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ہے۔
تشدد کا نشانہ بننے والے صحافی کی چند ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ ایک ویڈیو میں انہیں بندھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ فلیٹ سے لوبی میں آتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جب کہ چند ویڈیوز اسپتال میں طبی امداد دیتے وقت کی ہیں۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اسد طور پر حملے کا نوٹس لے لیا ہے۔
وزیرِ انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملزمان کو سی سی ٹی وی کیمروں میں دیکھا جا سکتا ہے، جب کہ وزیرِ اطلاعات ضروری ایکشن لینے کے لیے پہلے ہی پولیس سے رابطے میں ہیں۔
حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اپنے ایک بیان میں اسد طور پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت صحافیوں کے تحفظ پر لیکچر دینے کے بجائے میڈیا کا تحفظ یقینی بنائے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ جب صحافی اور آزادیٔ اظہا حملوں کی زد میں ہوں تو حکومت کی بزدلی مزید نمایاں ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سچ سامنے لانے کے لیے جامع اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ اسد طور پر نامعلوم افراد نے حملہ ایسے وقت کیا ہے جب حکومت نے چند روز قبل ہی قومی اسمبلی میں صحافیوں کے تحفظ کا بل پیش کیا تھا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی اسد طور پر حملے کی مذمت کی ہے۔
کمیشن نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ وہ اس حملے کو آزادیِ اظہار اور میڈیا کی آزادی پر حملے کے طو پر دیکھتے ہیں۔
ایچ آر سی پی نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کرتے ہوئے انہیں سزا دی جائے۔
واضح رہے کہ یہ پاکستان میں کسی صحافی پر تشدد کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی ماضی میں کئی صحافی نامعلوم افراد کے تشدد کا نشانہ بنتے رہے ہیں جن میں مطیع اللہ جان، ابصار عالم اور عمر چیمہ سمیت کئی دیگر نام شامل ہیں، جب کہ آج تک ملزمان کا سراغ نہیں لگ سکا۔