جدید ترین ٹیکنالوجی اور نت نئی ایجادات میں جاپان کا شمار صف اول کے ملکوں میں ہوتا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جاپانیوں کی اکثریت خرید و فروخت کے لیے کریڈٹ کارڈ اور دیگر الیکٹرانک طریقوں کے بجائے کیش کو ترجیج دیتی ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں جاپان وہ واحد ملک ہے جہاں ہر پانچ میں سے چار خریدار کاوؑنٹر پر قیمت ادا کرتے وقت جیب سے کریڈٹ کارڈ کے بجائے بٹوا نکالتے ہیں اور کرنسی نوٹ گن کر دیتے اور گن کر چینج واپس لیتے ہیں۔
نقد لین دین پر اگرچہ زیادہ وقت لگتا ہے، اور قطار میں کھڑے دوسرے گاہکوں کو کاؤنٹر تک پہنچنے میں زیادہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جاپانی برا نہیں مانتے اور کیش کو ہی ترجیج دیتے ہیں۔
جاپانیوں کو کریڈٹ کارڈ اور الیکٹرانک طریقوں سے خرید و فروخت کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے کمپنیاں انہیں مختلف ترغیبات دے رہی ہیں۔ حتیٰ کہ ’پے پال‘ انہیں اکتوبر سے یہ پیش کش کر رہا ہے کہ ’پے پال‘ سے ادائیگی کرنے پر انہیں 10 فی صد کم قیمت دینی پڑے گی۔
لیکن کہا جا رہا ہے کہ جاپانی خرید پر 10 فی صد رعایت نہیں لیں گے اور دکاندار کو رقم گن کر ہی دیں گے۔
دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں صورت حال جاپان کے برعکس ہے۔ جنوبی کوریا میں 90 فی صد خرید و فروخت الیکٹرانک ذریعے سے ہوتی ہے، جب کہ سوئیڈن نے تو یہ اعلان کر رکھا ہے کہ 2023 تک اس کے ملک میں کرنسی ختم ہو جائے گی اور سارا لین دین اور خرید و فروخت الیکٹرانک ہو گا۔
امریکہ سمیت یورپی ملکوں میں زیادہ تر خریداری کریڈٹ کارڈ وغیرہ سے کی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ ترقی پذیر ملکوں میں بھی کریڈٹ کارڈ کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ لیکن جاپانی اس جانب آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اس سلسلے میں ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ لین دین کے الیکٹرانک نظام کو فراڈ اور دھوکہ دہی سے محفوظ رکھنے کی ایجاد بھی جاپانیوں کی ہی ہے، جسے کرنسی کی محفوظ ترسیل کے لیے دنیا بھر میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
جاپان نے الیکٹرانک کوڈ 1990 کے عشرے میں متعارف کرایا تھا۔ دنیا بھر میں ادائیگیوں کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا چپ کارڈ بھی ایک جاپانی کمپنی سونی نے ایجاد کیا تھا۔
دنیا کو الیکٹرانک لین دین کی راغب کرنے والے جاپانی اپنے ملک میں خرید و فروخت کے لیے کیش کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جاپان دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں کے 28 فی صد لوگوں کی عمریں 65 سال سے زیادہ ہیں۔
بڑی عمر کے افراد عموماً نئی چیزیں اپنانے سے ہچکچاتے ہیں۔ لیکن جاپانیوں کا معاملہ ایک اور حوالے سے بھی ذرا مختلف ہے۔ بڑی عمر کے اکثر جاپانی ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اکثر اوقات ان سے کوئی بات کرنے والا نہیں ہوتا۔ جب وہ گھر میں بیٹھے اکتا جاتے ہیں تو خریداری بات چیت کا ذریعہ بنتی ہے۔ وہ کوئی چھوٹی موٹی چیز اٹھا کر کاؤنٹر پر لاتے ہیں۔ پھر وہ بٹوا نکال کر رقم گنتے ہیں اور گن کر بقایا واپس لیتے ہیں۔ اس دوران وہ کاؤنٹر والے سے گپ شپ کر لیتے ہیں۔
ایک دکاندار کاتسویوکی نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ ان کے علاقے میں زیادہ تر بڑی عمر کے لوگ رہتے ہیں۔ یہاں زندگی بہت سست رفتار ہے۔ لوگوں کو کہیں آنے جانے کی جلدی نہیں ہوتی۔ وہ کاؤنٹر پر قیمت ادا کرنے کے دوران رُک کر باتیں کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے انہیں کریڈٹ کارڈ وغیرہ پسند نہیں ہیں۔
کیش سے خریداری کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ جاپان میں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جیب میں چاہے کتنی ہی نقد رقم ہو، آپ کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ کوئی اُسے چھین لے گا۔
جاپان کی حکومت بھی کیش کے زیادہ استعمال سے پریشان ہے۔ کیش کی بڑی پیمانے پر طلب کی وجہ سے ملک بھر میں دو لاکھ سے زیادہ اے ٹی ایم نصب ہیں۔
بوسٹن کنسلٹنٹ گروپ کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جاپان میں اے ٹی ایم میں کیش پہنچانے، ان کی سکیورٹی اور کیش مشینوں کی دیکھ بھال پر سالانہ دو ٹریلین ین، یعنی 18 ارب ڈالر کی لاگت آتی ہے۔ یہ اخراجات کم کرنے کے لیے حکومت الیکٹرانک لین دین کے نظام کو رائج کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔
حکومت کی نظریں 2025 میں جاپان میں ہونے والے اولمپکس پر جمی ہیں جس میں لاکھوں سیاحوں کی آمد متوقع ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ بڑے پیمانے پر سیاحوں کی آمد اور لین دین کا الیکٹرانک نظام اپنانے کی ترغیبات سے جاپان میں 40 فی صد خرید و فروخت ڈیجیٹل پر منتقل ہو جائے گی۔
تاہم ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کوششوں کو اتنی کامیابی مل سکے گی جتنا حکومت توقع کر رہی ہے۔