بھارت کی ایک خاتون مسلم اسکالر کو، جنہوں نے بھارتی ریاست کیرالا میں جمعے کی نماز کی امامت کی تھی، موت کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔
بھارتی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ 34 سالہ خاتون جمیدہ ، جو قرآن سنہ سوسائٹی کی جنرل سیکرٹری ہیں، اسلامی روایات کے برخلاف نمازوں میں امامت کر چکی ہیں ، جب کہ اسلامی قواعد کے مطابق صر ف مرد ہی نماز کی امامت کرا سکتا ہے۔
این ڈی ٹی وی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ مالاپورم میں جماعدہ کی امامت میں تقریبا ً 80 لوگوں نے نماز پڑھی جن میں عورتیں اور مرد شامل تھے۔
جمیدہ نے ہندوستان ٹائمز کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اسلام میں یہ کہیں بھی نہیں لکھا ہے کہ عورتوں کو نماز کی امامت کرنے کی ممانعت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قرآن عورتوں کے خلاف امتیاز نہیں برتا۔ امتیاز اور تعصب وہ کرتے ہیں جو اس کی تشریح اور وضاحت کرتے ہیں۔ اپنے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ہمیں مذہب کو ان اماموں اور مبلغوں سے بچانا ہوگا جو مردوں کی بالادستی کے حامی ہیں۔
جمیدہ جن کے اقدام کو ابتدائی طور پر سراہا گیا تھا، اب انہیں سوشل میڈیا پر موت کی دھمکیاں مل رہی ہیں ۔ انہوں نے پولیس سے سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے کہا۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں دھمکی آمیز فون کالز موصول ہو ئی ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی ان کے خلاف کہا جا رہا ہے۔ لوگ امامت سے متعلق میرے فیصلے کے خلاف کھلم کھلا بول رہے ہیں۔
جمیدہ ، نیویارک کی ایک مسلم اسکالر امینہ ودود سے متاثر ہیں جنہوں نے تقریبا ایک عشرہ قبل نماز کی امامت کی تھی۔ جماعدہ کا کہنا ہے کہ مردوں نے اسلام کی تشريح اپنے مفادات کے مطابق کی ہے ۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ ایک روز تبدیلی ضرور آئے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ عورتوں کو چاہیے کہ وہ آگے آئیں اور مردوں کی اس بالادستی کے خلاف آواز اٹھائیں جنہوں نے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے مذہب کی اپنے مفاد میں تشريح کی۔
امام کونسل آف انڈیا کے مولانا مسعود الحسن قاسمی نے سی این این ننوز پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام میں ایک عورت مردوں کی جماعت کی امامت نہیں کر سکتی۔
جمیدہ کے اس اقدام سے سوشل میڈیا پر ایک بڑی بحث شروع ہو گئی ہے۔