رسائی کے لنکس

کیلی فورنیا میں خواتین کی پہلی مسجد


برکلے کیلی فورینا میں دنیا میں عورتوں کی پہلی مسجد۔ فائل فوٹو
برکلے کیلی فورینا میں دنیا میں عورتوں کی پہلی مسجد۔ فائل فوٹو

نومسلم ربیعہ کیبل اپنی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خواتین کے ساتھ الگ نماز پڑھتے ہوئے امام کو نہ دیکھ پاتی تھیں ۔ اس لیے انہوں نے ایک نئی مسجد قائم کی جہاں مردوں اور خواتین کو ایک ہی جگہ عبادت کرنے کی اجازت ہے۔

دنیا بھر کی مساجد میں مرد اور خواتین الگ الگ عبادت کرتے ہیں، کبھی کبھی ایک ہی جگہ پر کسی پردے یا پارٹیشن سے منقسم علیحدہ حصوں میں اور کبھی علیحدہ کمروں میں۔ لیکن امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر برکلے میں ایک ایسی جگہ پر، جو روائتوں کو چیلنج کرنے کی وجہ سے معروف ہے ، مسلم خواتین کا ایک گروپ کچھ نیا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

دس سال پہلے جب ربیعہ کیبل نے اسلام قبول کیا تو خواتین کےلیے مردوں کے ساتھ ایک ہی جگہ نماز پڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ میرا خیال ہے کہ پہلے پہلے ایک نو مسلم کے طور پر میں نے ہر چیز کو قبول کیا، کیوں کہ مجھے محسوس ہوا کہ مجھے وہ سب کچھ کرنا تھا۔میرا خیال تھا کہ خد کی رضا یہی ہے کہ جو کچھ پہلے سے ہو رہا ہے میں اسے قبول کروں ۔ لیکن ایک ذہین سوچ رکھنے والے ایک شخص کے طور پر ، کچھ عرصے بعد مجھے یہ لگنے لگا کہ اس طریقے میں ایک عدم توازن سا ہے۔

نومسلم ربیعہ کیبل اپنی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خواتین کے ساتھ الگ نماز پڑھتے ہوئے امام کو نہ دیکھ پاتی تھیں ۔ اس لیے انہوں نے ایک نئی مسجد قائم کی جہاں مردوں اور خواتین کو ایک ہی جگہ عبادت کرنے کی اجازت ہے۔

اس مسجد کا نام قلب مریم ہے ۔ جس کا مطلب ہے مریم کا دل۔ اس مسجد کی بانی ربیعہ کا کہنا ہے کہ اس نام کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ حضرت عیسیٰ کی والدہ مریم، عیسائیت اور اسلام دونوں کے لیے اہمیت رکھتی ہیں۔

مصری نژاد حسام موسیٰ کا کہنا ہے کہ انہوں نے گیارہ سال قبل اپنی بیٹی کی پیدائش کے بعد مسجد جانا چھوڑ دیا تھا۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی بیٹی کو برکلے کی مسجد میں لائیں۔

انہوں نے کہا کہ اسے ایک نیا ماڈل دکھانے کے لیے، جو اسے یہ دکھا سکے کہ آپ ایک ایسی جگہ ا ور ایک ایسے ماحول میں جہاںسب برابر ہیں، اپنے مذہبی ورثے کو بھی برقرارر کھ سکتے ہیں اور اورپنے مذہبی ثقافت کو بھی ۔

لیکن عبادت کا یہ انداز ہر ایک کو قبول نہیں ہے۔

مسجد کی بانی ربیعہ کیبل کہتی ہیں کہ مجھے مسلمان مردوں کی جانب سے کچھ تنقید کا سامنا ہوا لیکن میں نے شروع ہی سے یہ پختہ أراد ہ کر لیا تھا کہ اگر مجھے دھمکیا ں ملیں یا مجھے کچھ ایسی باتیں سننے کو ملیں جو مجھے اچھی نہ لگیں تو میں انہیں بس نظر انداز کر دوں گی۔

بہت سے مسلمانوں کے لیے مردوں اور عورتوں کا الگ الگ جگہوں پر نماز پڑھنا ایک اہم روایت ہے ۔ کچھ خواتین کے لیے مردوں سے الگ نماز پڑھنا کبھی بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا ہے ۔مثلا سلیمہ جونز کے لیےجن کا کہنا ہے کہ وہ اسی طرح پلی بڑھی ہیں۔ لیکن یہ مسجد انہیں کچھ ایسا کرنے کا موقع فراہم کر رہی ہے جس کا انہیں پہلے کبھی تجربہ نہیں ہواتھا۔

انہوں نے کہا کہ میں کبھی کسی ایسی مسجد میں نہیں گئی تھی جہاں کوئی خاتون امامت کراتی ہو اور جہاں میں کبھی یہ سوچ بھی سکتی کہ میں بھی در حقیقت امامت کرا سکوں گی۔ اس سے مجھے با اختیار ہونے کا ایک إحساس ملتا ہے۔ جیسا کہ آپ باہر جا سکتی ہیں اور کچھ بھی کر سکتی ہیں۔

مسجد کی بانی ربیعہ کا مقصد ایک ایسی جگہ تشکیل دینا ہے جہاں ہر ایک اپنی پذیرائی محسوس کرے۔

وہ کہتی ہیں کہ اگر کوئی میرے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہے ، وہ مرد ہے یا عورت، شیعہ ہے یا سنی ، آپ جو کوئی بھی ہیں آپ کا کوئی بھی رنگ ہو آپ کا تعلق دنیا کے کسی بھی حصے سے ہے اگر آپ میرے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں تو آپ اس دنیا میں میرے ساتھ شامل ہوں اور یہ بہت اچھی بات ہو گی۔

XS
SM
MD
LG