لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 کے ضمنی انتخاب کے غیر سرکاری نتائج تو شاید اتنے غیر متوقع نہیں تھے جہاں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے باعث خالی ہونے والی نشست پر ان کی اہلیہ کلثوم نواز 14 ہزار سے زائد ووٹوں کے فرق سے تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد کو شکست دینے میں کامیاب رہیں۔ لیکن، اس کانٹے کے مقابلے میں بعض غیر متوقع اور توجہ طلب امور بھی سامنے آئے ہیں۔
مرکز میں حزب مخالف کی سب سے بڑی اور جنوبی صوبہٴ سندھ میں برسراقتدار دیرینہ سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار فیصل میر اس ضمنی انتخاب میں محض 1414 ووٹ حاصل کر سکے، جبکہ جماعت الدعوۃ کی تشکیل کردہ نو آموز اور الیکشن کمیشن میں غیر اندراج شدہ سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار یعقوب شیخ نے 5822 ووٹ حاصل کیے۔
اسی طرح سخت گیر مؤقف رکھنے والی مذہبی جماعت، لبیک پارٹی کے شیخ اظہر 7130 ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے، جب کہ جمہوری عمل کے ذریعے نظام کی تبدیلی کی حامی مذہبی جماعت جماعت اسلامی کے امیدوار ضیاالدین انصاری صرف 592 ووٹ ہی سمیٹ سکے۔
پیپلز پارٹی نے حالیہ مہینوں میں خاص طور پر پنجاب میں تنظیم نو اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کو مہمیز کیا تھا اور اس جماعت کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ملک بھر میں دورے کر کے سیاسی اجتماعات سے خطابات بھی کرتے رہے۔
لیکن، اس ضمنی انتخاب میں مذہبی اور کٹڑ نظریات رکھنے والی تنظیموں کے حمایت یافتہ امیدواروں کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کو انتہائی کم ووٹ ملے۔
اس پر پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ یہ حلقہ گزشتہ 30 سالوں سے میاں نواز شریف کا مضبوط گڑھ رہا ہے اور پیپلز پارٹی نے اس بار یہاں سے ایک نوجوان کارکن کو موقع دیا تھا۔
لیکن، یہ امر قابل ذکر ہے کہ 1970 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اسی حلقے سے تقریباً 78 ہزار سے ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔
جمہوریت کے فروغ اور شفافیت سے متعلق موقر غیر سرکاری تنظیم 'پلڈاٹ' کے عہدیدار اور سیاسی امور کے تجزیہ کار احمد بلال محبوب کے خیال میں پیپلزپارٹی پنجاب میں سیاسی طور پر اپنی تنظیم نو کرنے میں کامیاب نہیں رہی اور ملی مسلم لیگ مذہبی رجحان اور نظریات رکھنے والے ایسے ووٹرز جو پہلے دیگر مذہبی جماعتوں کو ووٹ دیتے تھے، کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب دکھائی دی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "اس جماعت کا ووٹ بینک تو ہے پھر آفات میں جو ان کے امدادی کام ہیں اور رفاحی کام ان کی وجہ سے بھی لوگ انھیں جانتے ہیں اور پھر ایک ماضی تو ہے نا جہاد کا تو جہادی طبقہ ہے ان کی حمایت بھی انھیں حاصل ہے۔"
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ گو کہ محض اس ایک حلقے سے سامنے آنے والے نتائج کی بنیاد پر سیاسی رجحان وضع کرنا قبل از وقت ہوگا، لیکن اس بات کا امکان ہے کہ ملی مسلم لیگ آنے والے انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک متاثر کر سکتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ "کوئی اتنے زیادہ ووٹ تو نہیں لیے انھوں نے۔ لیکن، پھر بھی پیپلز پارٹی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔۔۔جو پہلے جمعیت علمائے اسلام کو ووٹ دیتے تھے، جماعت اسلامی کو یا مسلم لیگ کو وہ اب انھیں ووٹ دیں گے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جماعت کسی کے ساتھ اتحاد کر لے۔"
اس دوران حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی طرف سے ایسے دعوے بھی سامنے آئے ہیں کہ ان کی جماعت کے بعض کارکنوں کو انتخاب سے قبل مبینہ طور پر غائب کر دیا گیا۔ لیکن، ان دعوؤں پر اسے حزب مخالف سمیت دیگر سماجی حلقوں کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے اور ان حلقوں کا کہنا ہے کہ مرکز اور پنجاب میں حکمران جماعت کو اس بارے میں دعوے اور الزام کی بجائے اس کی تحقیقات کرنی چاہیے۔
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ انھوں نے ان مبینہ گمشدگیوں کی تحقیقات کی ہدایت کر دی ہے۔
تجزیہ کار احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ فی زمانہ کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکنوں کو جبری طور پر گمشدہ کرکے انتخابی عمل یا نتائج پر اثرانداز ہونا مشکل ہے اور حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ان دعوؤں کی حقیقت سے لوگوں کو آگاہ کرے۔