افغان طالبان نے سابق سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ اور بعد میں طالبان تحریک کے قیام اور مسلح کارروائیوں میں اہم کردار ادا کرنے والے مولوی جلال الدین حقانی کے انتقال کی تصدیق کردی ہے۔
مولوی حقانی کا تعلق افغانستان کے سرحدی صوبے خوست اور پختونوں کے قبیلے زدران سے تھا اور وہ افغانستان پر 2001ء میں امریکی حملے کے بعد سے روپوشی کی زندگی گزار رہے تھے۔
افغانستان میں جب سابق بادشاہ ظاہر شاہ کے خلاف جولائی 1973ء میں سردار داؤد خان نے بغاوت کی تھی تو ملک میں مذہبی حلقے متحرک ہوئے تھے اور سوویت یونین کی حمایتی اور وفادار ترقی پسند قوتوں کے خلاف منظم ہونا شروع ہوئے تھے۔
ترقی پسندوں کے خلاف سرگرم ہونے والوں میں نوشہرہ کے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے فارغ التحصیل مولوی جلال الدین حقانی بھی شامل تھے۔
حقانی ان سرِ فہرست جہادی اور مذہبی رہنماؤں میں سے تھے جنھوں نے 1970ء کی دہائی کے اواخر اور افغانستان پر سابق سوویت یونین کی افواج کی چڑھائی سے قبل ہجرت کرکے پاکستان میں سکونت اختیار کرلی تھی۔
مولوی جلال الدین اپنے خاندان اور رشتہ داروں سمیت خوست سے ملحق قبائلی علاقے شمالی وزیرستان منتقل ہوگئے تھے اور انہوں نے میران شاہ کے ایک نواحی گاؤں ڈانڈے درپہ خیل میں نہ صرف اپنا ایک مرکز بلکہ ایک مدرسہ بھی 'دارلعلوم منبع العلوم' کے نام سے قائم کیا تھا۔
اسی مرکز سے مولوی جلال الدین حقانی نے سابق سوویت یونین اور اس کے حمایت یافتہ افغان حکومت کے خلاف نہ صرف خود مسلح مزاحمت کا آغاز کیا تھا بلکہ اس میں افغانستان اور پاکستان کے مذہبی حلقوں کو شامل ہونے پر آمادہ بھی کیا تھا۔
مولوی جلال الدین حقانی بعد میں حزبِ اسلامی افغانستان کے اس دھڑے کے اہم رہنما بن گئے تھے جس کے سربراہ مولوی یونس خالص تھے۔
افغانستان میں 1992ء میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت مستعفی ہونے کے بعد جب افغان مجاہدین کی حکومت قائم ہوئی تو مولوی جلال الدین حقانی نے افغان صدور پروفیسر صبعت االلہ مجددی اور بعد ازاں پروفیسر برہان الدین ربانی کی کابینہ میں وزیر برائے سرحدی امور کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیے۔
البتہ چند سال بعد جب افغانستان میں طالبان تحریک کے نام سے قیامِ امن کو اپنا مقصد قرار دینے والی ایک اور تحریک نمودار ہوئی تو مولوی جلال الدین حقانی بھی اس تحریک میں شامل ہوگئے۔
وہ نہ صرف طالبان کے کوئٹہ شوریٰ میں شامل رہے بلکہ 1996ء سے 2001ء تک طالبان حکومت میں وزیر بھی رہے۔
گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد جب افغانستان پر امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا تو مولوی جلال الدین حقانی نے کوئٹہ شوریٰ کے فیصلے کے تحت امریکہ اور اتحادی افواج کے خلاف مسلح مزاحمت جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
بعد میں ان کے وفادار کمانڈروں اور جنگجوؤں نے حقانی نیٹ ورک کے نام سے ایک مسلح تنظیم قائم کی جو طالبان کی اتحادی ہے۔
چند سال قبل امریکہ اور اتحادی افواج کے ساتھ ایک جھڑپ میں مولوی جلال الدین حقانی شدید زخمی ہوئے تھے جس کے بعد اُنہوں نے حقانی نیٹ ورک کی تمام تر انتظامی اور آپریشنل نگرانی اہنے بڑے بیٹے سراج الدین حقانی کے سپرد کردی تھی۔
پہلی بار 2014ء میں مولوی جلال الدین حقانی کے طبعی موت مرنے کے اطلاعات سامنے آئی تھیں جس کے بعد سے کئی بار ان کی موت کی خبر ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکی ہے تاہم آج سے قبل طالبان نے کبھی ان خبروں کی تصدیق نہیں کی تھی۔
جلال الدین حقانی اپنی علالت کے دوران سعودی عرب بھی گئے تھے جہاں ویزے کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ مشکلات کا شکار ہوگئے تھے۔
تاہم بعد میں انہیں سعودی عرب سے پاکستان منتقل کردیا گیا تھا اور بعض اطلاعات کے مطابق وہ آخری وقت تک اپنے بیٹے خلیل حقانی کے گھر میں مقیم رہے جو راولپنڈی کے ایک نواحی علاقے میں واقع ہے۔
مولوی جلال الدین حقانی نے تین شادیاں کی تھیں۔ ان کی ایک بیوی کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔
عرب خاتون سے شادی کے علاوہ جلال الدین حقانی نے سعودی عرب کی بعض بااثر مذہبی شخصیات سے بھی اپنے خاندان کے رشتے اور روابط قائم کیے تھے۔
مولوی جلال الدین حقانی کے چار بیٹے سراج الدین حقانی، خلیل حقانی، ابراہیم حقانی اور انس حقانی زندہ ہیں۔ انس حقانی لگ بھگ پانچ سال قبل گرفتار ہوئے تھے اور اطلاعات کے مطابق ابھی تک کابل کی کسی جیل میں قید ہیں۔
جلال الدین حقانی کے چار بیٹے عمر حقانی، محمد حقانی، بدرالدین اور نصیر الدین حقانی اس دنیا میں نہیں رہے ہیں۔
مولوی جلال الدین حقانی کو افغانستان کی قومی زبانوں یعنی پشتو اور دری کے علاوہ اردو، پنجابی، عربی اور انگریزی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔
وہ 1980ء کی دہائی کے اوائل میں سوویت یونین کے خلاف مسلح مزاحمت کرنے والے دیگر افغان رہنماؤں کے ہمراہ امریکہ کے دورے پر بھی گئے تھے جہاں ان کی سابق صدر رونالڈ ریگن سمیت کئی یگر رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئی تھیں۔