ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کو نو سال ہو چکے ہیں۔ اس عرصے میں مذہبی شخصیتوں اور سیکولر گروپوں نے بین المذاہب امن و آشتی کو فروغ دینے کی زبردست مہم چلائی ہے لیکن بعض مبصرین کی نظر میں، اسلام کو ہوّا بنانے کی کوششوں میں کمی نہیں آئی ہے۔
سعید صادق قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلامک سینٹر پر ہونے والی بحث میں نسل پرستی کا جو طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے، اس پر انہیں شدید حیرت اور دکھ ہوا ہے ۔’’اس بحث سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے جیسے نائن الیون کا حملہ اسلام کے نام پر اسلا م کے نمائندوں نے کیا تھا۔ جیسے اسامہ بن لادن اور ایمن الزواہری اسلام کے نمائندے تھے۔ یہ دونوں اور القاعدہ ، اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے۔ آپ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو ان حملوں کا الزام نہیں دے سکتے اور آپ یہ کہہ کر اس کی تعمیر کی اجازت دینے سے انکار نہیں کر سکتے کہ ہم اسلامک سینٹر کو برداشت نہیں کر سکتے ۔ ایسا کرنا دنیا بھر کے مسلمانوں کی بے عزتی ہوگی۔‘‘
مصر کے دارالحکومت میں بعض لوگ اس مسئلے کے بارے میں زیادہ بردباری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ لوگوں میں ناواقفیت عام ہے ۔ 29سالہ حسام ٹیلی کمیونیکیشنز کے شعبے میں کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے بارے میں گھسے پٹے تصورات عام ہیں۔’’جب لوگ کسی ڈاڑھی والے شخص کو دیکھتے ہیں تو کہتےہیں کہ یہ دہشت گرد ہے ۔ دوسری طرف سر پر حجاب لینے والی لڑکی نن ہو سکتی ہے ۔ لمبی سی ڈاڑھی والا شخص پادری ہو سکتا ہے ۔ لوگوں کے ذہن میں مسلمانوں کے بارے میں کچھ غلط تصورات ہیں اور وہ ان سے بعض نتیجے اخذ کر لیتےہیں۔ اسامہ بن لادن کی لمبی سی ڈاڑھی کی وجہ سے لوگوں کے خیال میں ہر ڈاڑھی والا شخص دہشت گرد ہوتا ہے۔ میں مصری مسلمان ہوں اور میرے ڈاڑھی نہیں ہے، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘
امام فیصل عبدالرؤف ، جو اسلامک سینٹر کی تعمیر کے پراجیکٹ کے سربراہ ہیں اور جن کی داڑھی بڑی نفاست سے ترشی ہوئی ہے، ان لوگوں میں شامل ہیں جو برسوں سے بین المذاہب مفاہمت کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ آج کل مشرقِ وسطیٰ میں ہیں اور امریکی حکومت کی طرف سے اعتدال پسندی کا پیغام لے کر وہاں گئے ہیں۔ اس ہفتے بحرین میں ایک تقریر کے دوران انھوں نے ایک بار پھر یہ بتانے کی کوشش کی کہ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے ۔ انھوں نے کہا’’دہشت گردی جس اصول پر قائم ہے، اس کی اسلام میں سختی سے ممانعت ہے ۔ہمارا دین نہ صرف روحانیت اور اخلاقیات کی بنیاد پر قائم ہے بلکہ یہ قانون اور قانون کی حکمرانی کا دین بھی ہے ۔‘‘
جارج ڈبلیو بُش کی سابق امریکی انتظامیہ نے امام رؤف کو اعتدال پسند اسلام کے پیرو کار کی حیثیت سے پہچان لیا تھا۔ پروفیسر صادق کہتے ہیں کہ خود صدر اوباما نے مسلمانوں سے رابطہ قائم کرنے کی مہم شروع کی ہے۔ ان کی قاہرہ کی مشہور تقریر کا مقصد یہی تھا۔ لیکن پروفیسر صادق کہتےہیں کہ صدر کو امریکہ میں مسلمانوں کے تاثر کے بارے میں زیادہ وقت صرف کرنا چاہیئے تھا۔ ’’اس پورے تنازعے کو اس انداز سے دیکھنا کہ امام رؤف اعتدال پسند ہیں یا نہیں، اصل مسئلے سے فرار اختیار کرنے کے مترادف ہے ۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم اسلام کو امریکی ثقافت کا حصہ سمجھتے ہیں یا نہیں؟‘‘
قاہرہ کی سڑکوں پر ہماری ملاقات محمد سے ہوتی ہے جو بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح اس امید کا اظہار کرتےہیں کہ بالآخر مفاہمت اور دانشمندی غالب آ جائے گی۔’’ اسلامک سینٹر کا تصور بہت خوبصورت ہے۔یہ سب کے لیے ہوگا۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ہر ایک کو اپنا مذہب عزیز ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو اپنے مذہب پر فخر ہے۔ وہ اس امید کا اظہار کرتے ہیں کہ اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے گا۔