رسائی کے لنکس

اسلام آباد: مظاہرین میں وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ


دھرنے کے شرکا کی اکثریت پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مقیم ہے جنہیں دھوپ، گرمی اور بعض اوقات بارش کا سامنا بھی رہتا ہے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں حکومت مخالف دھرنوں کی وجہ سے جہاں دیگر شعبہ زندگی متاثر ہوئے ہیں وہیں طبی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ حفظان صحت اور صفائی ستھرائی کے ناکافی انتظامات کی وجہ سے جنم لینے والی بیماریاں وبائی شکل اختیار کر سکتی ہیں۔

پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پاکستان عوامی تحریک کے ہزاروں کارکن گزشتہ ایک ہفتے سے دھرنا دیے ہوئے ہیں جب کہ پاکستان تحریک انصاف کے لوگ بھی سر شام ہی یہاں جمع ہو جاتے ہیں۔

دھرنے کے شرکا کی اکثریت یہیں مقیم ہے جنہیں دھوپ، گرمی اور بعض اوقات بارش کا سامنا بھی رہتا ہے۔

مظاہرین میں وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:09 0:00

اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال پمز کے اعلیٰ عہدیدار پروفیسر جاوید اکرم نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ دھرنے کے شرکا اپنے گھروں سے دور ہیں اور یہاں کئی روز سے مقیم ہیں اور انھیں نہ تو مناسب خوراک مل رہی ہے اور نہ ہی حوائج ضروریہ کے لیے معقول انتظام ہے جس کی وجہ سے یہاں مختلف بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔

"میرے خیال میں بہت زیادہ شدید خطرہ ہے کیونکہ ظاہر ہے جہاں پر فضلہ صحیح طریقے سے صاف نہیں کیا جارہا اور آپ ہاتھ نہیں دھو پاتے صحیح طرح، آپ کو معیاری پانی اور معیاری خوراک نہیں مل رہے اور آپ دھوپ میں اور آپ آلودہ آب و ہوا میں ہیں تو اور اس طرح کی صورت حال میں وبائی بیماریوں پھوٹتی ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ روزانہ تقریباً 15 سے 20 مریض ان کے ہاں مختلف قسم کے امراض کے ساتھ رجوع کر رہے ہیں اور اگر دھرنے والی جگہ پر صورتحال ایسی ہی رہی تو یہ بیماریاں دیگر کئی جگہوں تک بھی پھیل سکتی ہیں۔

پروفیسر جاوید اکرم نے خاص طور پر پولیو کے پھیلاؤ کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

"ان میں سے بہت سارے لوگ خیبر پختونخواہ سے آئے ہیں فاٹا سے آئے ہیں اور ان کا ویکسینیشن اسٹیٹس ان کے بچوں کا ویسے ہی مشکوک ہیں کیونکہ وہا ں پر ویکسنیڑ اور طبی کارکنوں پر حملے ہوئے اور ویکسینشن مہم معطل ہوتی رہی جس کی وجہ سے پولیووائرس ظاہر ہے ابھی بھی موجود ہے پھر خطرہ ہے وائرس ان کے فضلے میں موجود ہے تو یہ دوسرے لوگوں اور بچوں تک پھیل سکتا ہے۔"

دھرنے کے شرکا میں ایک بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے جب کہ احتجاجی دھرنوں کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہزاروں اہلکار بھی یہاں تعینات ہیں اور پروفیسر جاوید اکرم کے بقول یہ لوگ بھی مختلف امراض خاص طور پر شدید تھکن اور ذہنی دباؤ سے منسلک بیماری کا شکار ہو رہے ہیں۔

مرکزی حکومت مذاکراتی عمل کے ذریعے یہ معاملہ نمٹانے کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن تاحال اس میں اسے کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔

امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے اسلام آباد پولیس کے علاوہ یہاں پنجاب اور کشمیر سے بھی اہلکار طلب کیے گئے ہیں جب کہ رینجرز کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔

پروفیسر جاوید اکرم کا بھی یہ کہنا تھا کہ کسی بھی طرح کی طبی وبا پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر بھی دھرنے کے شرکا کو بحفاظت یہاں سے رخصت کیا جانا چاہیئے بصورت دیگر صورتحال سنگین صورت اختیار کر سکتی۔

XS
SM
MD
LG