رسائی کے لنکس

پی ٹی ایم اور عوامی ورکرز پارٹی کے کارکنان کے خلاف غداری و دہشت گردی کا مقدمہ ختم


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) اور عوامی ورکرز پارٹی کے کارکنان کے خلاف غداری اور دہشت گردی کا مقدمہ خارج کر دیا گیا ہے۔

اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے عدالت میں بیان دیا کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ پی ٹی ایم اور عوامی ورکرز پارٹی کے خلاف مقدمہ ختم کر دیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ 25 افراد کے احتجاج سے تو کچھ نہیں ہوتا۔ نہ ریاست اور نہ عدلیہ اتنی کمزور ہے کہ کسی کے کہنے پر ان کو کچھ فرق پڑے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس کیس کی سماعت کی جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈپٹی کمشنر کے بیان پر تمام آئینی درخواستیں نمٹا دیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مقدمہ واپس لینے سے متعلق اسلام آباد انتظامیہ کے بیان کے بعد تمام درخواستیں غیر موثر ہوگئی ہیں۔

اس موقع پر عدالت نے ملزمان کے وکیل کو کہا کہ اگر آپ کو احتجاج کرنے سے روکا جائے تو آپ متاثرہ ہوں گے۔ آپ پھر عدالت آسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امید کرتے ہیں کہ حکومت آزادی اظہار رائے پر قدغن نہیں لگائے گی۔ جو کچھ آج بھارت میں ہو رہا ہے وہ یہاں نہیں ہو گا۔ اکیڈمک معاملات کا فیصلہ ہائی کورٹ نہیں کر سکتی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پی ٹی آئی نے بھی 2014 میں دفعہ 144 کے خلاف پٹیشنز دائر کی تھیں۔ عدالت امید کرتی ہے کہ اب حکومت آزادی اظہار رائے کے بنیادی حق کو مدنظر رکھے گی۔ اگر آپ کو روکا جائے تو دوبارہ یہاں آسکتے ہیں آپ تو پرامن مظاہرین ہیں۔

ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کے روبرو درخواست کی کہ 20 سال دہشت گردی کا مقابلہ کیا۔ مظاہرین کا خفیہ ایجنڈا تشویشناک تھا۔ ریاست کے خلاف کوئی بات نہ کرے۔ ریاست کو گالی دینے اور نفرت انگیز تقاریر کے خلاف بھی تحریری حکم لکھ دیں۔

اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ملک میں جمہوریت ہے۔ پارلیمنٹ کو فیصلہ کرنے دیں۔ 25 افراد کے احتجاج سے کسی کو کچھ نہیں ہوتا۔ تنقید سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ ریاست یا کوئی ادارہ اتنا کمزور نہیں کہ کسی کے کہنے سے کچھ ہو جائے۔

اس معاملے کے حوالے سے عوامی ورکز پارٹی کے وکیل اسد جمال نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سکیشن 494 کے تحت ڈپٹی کمشنر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ عائد کردہ الزامات کو واپس لے اور آج انہوں نے یہی کیا کیوں کہ شاید ان کو نظر آ رہا تھا کہ ان کے پاس فیس سیونگ نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس میں عمر قید یا کم سزا بھی ہو سکتی ہے۔ دفعہ 124 کے تحت الزام لگانا اس وجہ سے آسان ہے کہ اگر صرف اتنا کہہ دیا جائے کہ حکومت وقت کے خلاف بات کر رہے ہیں تو اس پر بھی مقدمہ بن سکتا ہے لیکن ماضی میں سامنے آنے والی بعض مثالوں کی وجہ سے اب اس الزام میں گرفتار افراد کی ضمانت تقریباً حق بن گیا ہے۔

سول سوسائٹی کی فرزانہ باری کہتی ہیں کہ یہ ریاست کے اندر موجود تضادات کا اظہار ہے۔ حکومت اس وقت نہیں چاہتی کہ ان کے خلاف کوئی آواز اٹھے۔ جب بھی کوئی کوئی آواز اٹھتی ہے تو ان کے خلاف مقدمات بننے شروع ہو جاتے ہیں۔ لوگ عدالتوں میں جاتے ہیں تو زیادہ تر ججز حکومتی دباؤ اور خواہش کے تحت فیصلے کرتے ہیں اور یہ لوگ کئی کئی سال تک جیلوں میں بند رہتے ہیں۔ ان 23 لوگوں کو سول کورٹ نے جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجا اور ساتھ ہی کہا کہ دہشت گردی کی دفعات شامل کریں۔ لیکن ہائیکورٹ نے اس معاملہ کو سمجھا اور انہیں ریلیف دے دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بغاوت اور غداری کا الزام ان لوگوں پر لگایا جا رہا ہے جو محب وطن شہری ہیں اور اپنے حق کی بات کرتے ہیں لیکن یہ افسوسناک بات ہے۔

23 افراد کیوں گرفتار ہوئے؟

پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے باہر مظاہرین کا احتجاج جاری تھا کہ اس دوران بعض مظاہرین نے پولیس کے بقول ریاست اور پاکستان کی فوج کے خلاف نعرے بازی اور تقاریر شروع کر دیں جب کہ نفرت و حقارت پر مبنی الفاظ استعمال کیے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ اس دوران "یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے" کا نعرے بھی لگائے گئے۔ مظاہرین پریس کلب روڈ کے سامنے آ گئے۔

پولیس کے مطابق مظاہرین کو منتشر ہونے کا کہا گیا لیکن منتشر نہ ہونے پر 23 افراد کو حراست میں لیا گیا۔

احتجاج کے دوران گرفتار ہونے والے 23 افراد کوجوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا جنہوں نے ان افراد کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا۔

پولیس نے ایف آئی آر میں احتجاج میں موجود رکنِ قومی اسمبلی محسن داوڑ کا نام شامل نہیں کیا اور انہیں کچھ دیر حراست میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا۔

ان 23 افراد کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں آیا تو عدالت کی جانب سے اعتراضات پر پولیس نے بتایا کہ غداری کی دفعات ختم کرکے دہشت گردی کی دفعات شامل کردی گئی ہیں۔

گذشتہ سماعت پر عدالت نے دہشت گردی کی دفعات لگانے والے اس کیس کے مدعی ضلعی مجسٹریٹ کو عدالت میں طلب کیا جس پر آج ہونے والی سماعت میں ضلعی انتظامیہ نے مقدمہ ہی واپس لے لیا۔ ان افراد کو ضمانت پہلے ہی دی جا چکی تھی اور اب ان کے خلاف یہ مقدمہ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG