پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والے 23 گرفتار افراد کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھجوا دیا گیا ہے۔ پولیس نے ایف آئی آر میں رکنِ قومی اسمبلی محسن داوڑ کا نام شامل نہیں کیا اور انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔
اسلام آباد پولیس نے پی ٹی ایم کے 23 گرفتار کارکنوں کو بدھ کو جوڈیشل مجسٹریٹ شعیب اختر کی عدالت میں پیش کیا۔ پولیس نے مظاہرین کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیجنے کی استدعا کی جب کہ مظاہرین کے وکلا نے مخالفت کی۔
مظاہرین کے وکلا کا کہنا تھا کہ ہم پر امن احتجاج کر رہے تھے اور اس دوران کوئی توڑ پھوڑ یا مزاحمت نہیں کی گئی۔ پولیس نے دباؤ میں آ کر مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
وکیل اسد جمال نے کہا کہ پولیس کا مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے۔ مقدمے میں دفعہ 505 اے بی اور 124 اے کا اطلاق ہی نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کہتی ہے کہ فورسز کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ اس بات کا پولیس کے پاس کیا ثبوت ہے؟ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ مقدمہ کو مسترد کر دیا جائے۔
پولیس نے استدعا کی کہ ابھی ملزمان کے خلاف چالان بنانا باقی ہے اور کچھ ثبوت بھی اکٹھے کرنا ہیں۔ لہٰذا، ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیجا جائے۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا اور کچھ دیر بعد پی ٹی ایم کے گرفتار کارکنان کو اڈیالہ جیل بھیجنے کا فیصلہ سنایا۔ ملزمان کو 12 فروری کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
مظاہرین کے خلاف ایف آئی آر
وائس آف امریکہ کو دستیاب ایف آئی آر کے مطابق، نیشنل پریس کلب کے باہر منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف احتجاج میں پی ٹی ایم اور عوامی ورکرز پارٹی کے کارکنان اور عہدے دار موجود تھے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ مظاہرین کو آگاہ کیا گیا کہ دفعہ 144 کے تحت ایسے مظاہرے کرنے پر پابندی ہے۔ لیکن، مظاہرین نے منتشر ہونے کے بجائے ریاست اور پاکستان کی فوج کے خلاف نعرے بازی اور تقاریر شروع کر دیں اور نفرت و حقارت پر مبنی الفاظ استعمال کیے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس دوران "یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے" کا نعرہ بھی لگایا گیا اور مظاہرین پریس کلب روڈ کے سامنے آ گئے۔ پولیس کے بقول، مظاہرین کو منتشر ہونے کا کہا گیا، لیکن منتشر نہ ہونے پر 23 افراد کو حراست میں لیا گیا۔
پولیس نے اس ایف آئی آر میں 23 نامزد افراد کے نام لکھے ہیں جن میں رکنِ قومی اسمبلی محسن داوڑ یا کسی خاتون کا نام شامل نہیں ہے۔
پولیس نے نو مختلف دفعات کے تحت ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جن میں دفعہ 188، 353، 147، 149، 505اے، 505 بی، 124 اے، 341 اور 186 شامل ہیں۔
اسلام آباد میں پیشی کے موقع پر محسن داوڑ بھی ایف ایٹ کچہری میں موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے کارکنوں کے ساتھ ہیں۔ ہم اپنے ایک ایک کارکن کی رہائی تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
رکنِ قومی اسمبلی نے کہا کہ ہماری گرفتاری کے بعد ہمیں مختلف تھانوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ ان کے بقول "مجھے پولیس کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ مجھے چھوڑ رہے ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ جب تک تمام دیگر افراد کو نہیں چھوڑتے، میں نہیں جاؤں گا۔"
انہوں نے کہا کہ اس کے انہیں کہا گیا کہ تمام افراد کو چھوڑ دیا جائے گا تو انہوں نے وہاں سے آنے کا فیصلہ کیا۔
منظور پشتین کی گرفتاری
منظور پشتین کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے اتوار اور پیر کی درمیان شب حراست میں لیا تھا۔ ان کے خلاف ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک تھانے میں 21 جنوری کو ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
منظور پشتین پر ریاست کے خلاف ہرزہ سرائی کا الزام ہے۔
منگل کو پشاور کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت نے منظور پشتین کی طرف سے دائر کردہ راہداری کی درخواستِ ضمانت خارج کر دی اور اُنہیں پشاور سے ڈی آئی خان منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ملزم کے خلاف ڈی آئی خان میں مقدمہ درج ہوا تھا اور اسے وہیں کیس کا سامنا کرنا چاہیے۔
اس وقت منظور پشتین جوڈیشل ریمانڈ پر ڈی آئی خان کی جیل میں قید ہیں۔