عراق کے صدر برہم صالح نے عرب میڈیا کو بتایا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان بہتر تعلقات نہ صرف بغداد بلکہ پورے خطے کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں گے۔
وائس آف امریکہ کے ایڈورڈ یرینین کی رپورٹ کے مطابق، عراق کے صدر صالح کا کہنا ہے کہ خطے کے ان دو بڑے ممالک کے درمیان مصالحت کیلئے عراق اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور عراقی مصالحت کار پس منظر میں رہ کر ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی مصالحت کیلئے کام جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
ان کے بقول، ایک مستحکم عراق دونوں ہمسایوں کے مشترکہ مفاد میں ہے۔
مصالحت سے متعلق یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ سعودی عرب کی انٹیلی جنس کے سربراہ خالد الھمدان نے گزشتہ ماہ ایران کے پاسداران انقلاب کی 'قُدس فورس' کے سربراہ اسماعیل قاعانی سے بغداد میں ملاقات کی تھی۔ تاہم، یہ علم نہیں ہو سکا کہ اس ملاقات میں کوئی پیش رفت ہوسکی تھی یا نہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ایران گزشتہ کئی برسوں سے لبنان، عراق اور یمن میں ایک دوسرے کے خلاف درپردہ جنگ لڑ رہے ہیں۔
سعودی وزیر خارجہ فیصل بِن فرحان السعود نے اخبار نویسوں کو بتایا تھا کہ دیگر باتوں کے علاوہ سعودی عرب چاہتا ہے کہ ایران، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی سے سن 2015 میں طے کئے گئے جوہری معاہدے کی تمام شقوں پر عمل کرے۔ اس معاہدے کا مقصد ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنا تھا۔
سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ ایران دوبارہ اس معاہدے کی پاسداری کرے گا اور اور نہ صرف اس حوالے سے پائے جانے والےخدشات کو دور کرے گا، بلکہ علاقائی استحکام اور بیلسٹک میزائل اور دیگر امور پر پائے جانے والے شکوک کو بھی دور کرے گا۔
ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کیلئے ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ، محمد جواد ظریف نے گزشتہ ہفتے شام کے دار الحکومت دمشق کے دورے پر صحافیوں کو بتایا تھا کہ وہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان معمول کے تعلقات دیکھنے کے خواہاں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران اس کے لئے تیار ہے اور ہمیشہ سے سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات کیلئے تیار رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایران کے سعودی عرب کے ساتھ کچھ روابط ہوئے ہیں اور اسے امید ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعاون کے ذریعے یہ روابط نتیجہ خیز ثابت ہوں گے۔