امریکہ کے روزنامہ ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے خارجہ امور کے ایڈیٹر نے کہا ہے کہ یہ ’’شرمناک اور غصے‘‘ کی وجہ ہے کہ ایران میں ایک صحافی کو 444 دنوں کے لیے قید کیا گیا۔ 30 سال سے زائد عرصہ پہلے امریکی حکومت کے ملازمین کو ایران میں 444 دنوں کے لیے یرغمال بنا کر رکھا گیا۔
وائس آف امریکہ کی فارسی سروس سے ایک انٹرویو میں واشنگٹن پوسٹ کے ایڈیٹر ڈگلس جیل نے کہا کہ رپورٹر جیسن رضایان کو ایران میں ’’سودے بازی کے مہرے‘‘ کے طور پر رکھا جا رہا ہے۔
جمعے کو رضایان کو ایران میں قید ہوئے 444واں دن ہو گا۔ ایرانی نژاد امریکی شہری جیسن رضایان کو 15 ماہ قبل ایران میں واشنگٹن پوسٹ کے نامہ نگار کے طور پر کام کے دوران جاسوسی اور دیگر الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
ادھر واشنگٹن پوسٹ کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر مارٹن بیرن نے ایک بار پھر ایران پر زور دیا ہے کہ وہ ’’بغیر کسی تعطل کے‘‘ رضایان کو رہا کرے۔
’’جیس پر ایک خفیہ جعلی مقدمہ چلایا جا رہا ہے، اسے قید تنہائی میں رکھا گیا، اس سے لگاتار پوچھ گچھ کی گئی، اور اسے جسمانی اور ذہنی ایذا دی گئی۔ اس کے مقدمے کی سماعت دو ماہ پہلے ہوئی مگر اب تک کوئی فیصلہ نہیں سنایا گیا۔‘‘
اس سے قبل بیرن نے فارسی سروس سے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ رضایان کے خلاف الزامات ’’بے بنیاد اور مضحکہ خیز‘‘ ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ رضایان ’’ایک بے گناہ اور اچھا انسان ہے جسے کسی بھی دوسرے انسان کی طرح آزادی کا حق ہے۔‘‘
گزشتہ ماہ ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ اگر امریکہ اپنے ہاں قید ایرانیوں کو رہا کر دے تو ان کی حکومت رضایان اور ایران میں قید دو اور امریکیوں کی رہائی کے لیے کام کرے گا۔
دوسرے دو امریکی شہریوں میں ایک امیر حکمتی ہیں جو سابق امریکی میرین ہیں جن پر جاسوسی کا الزام عائد کیا گیا تھا جبکہ دوسرے سعید عابدین ہیں جنہوں نے عیسائیت قبول کرنے کے بعد ایک بائیبل اسٹڈی گروپ قائم کیا تھا۔
امریکی وفاقی تحقیقاتی ادارے 'ایف بی آئی' کے ایک سابق ایجنٹ رابرٹ لیونسن 2007 میں ایران میں لاپتہ ہو گئے تھے تاہم ان کے بارے مزید معلومات موجود نہیں ہیں۔
ایران نے ملک کے جوہری پروگرام پر عائد پابندیوں سے متعلق الزامات کے تحت امریکہ میں قید اپنے 19 شہریوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
رضائیان اور اُن کی ایرانی اہلیہ یگانہ صالحی کو جولائی 2014ء میں ایرانی سکیورٹی اہل کاروں نے تہران میں گرفتار کیا۔ صالحی جو خود بھی ایک صحافی ہیں، کو بعد میں رہا کر دیا گیا تھا۔ انہیں ایک علیحدہ مقدمے کا سامنا ہے۔