پاکستان کے پڑوسی ملک ایران کی سر زمین پر ایک ’انقلابی تبدیلی‘ 1979ء میں آئی تھی اور اب ایک تبدیلی دو تین روز قبل ہونے والے انتخابات کے نتائج کی صورت میں آتی محسوس ہو رہی ہے۔
انتخابات میں اصل مقابلہ اصلاح پسند رہنما اور موجودہ ایرانی صدر حسن روحانی اور قدامت پسند رہنما ابراہیم رئیسی کے درمیان تھا۔ 70 فیصد ٹرن آؤٹ والے انتخابات کے نتیجے میں حسن روحانی نے مطلوبہ پچاس فیصد بھی زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ یوں نہ تو حتمی نتیجے کے لئے انتخابات کا مرحلہ بھی طے نہیں کرنا پڑا اور وہ سادہ اکثریت سے آئندہ چار سال کے لئے ملک کے صدر منتخب ہوگئے۔
عرصے تک ایران میں قیام کرنے والے، مذہبی مفکر، فلاسفر، قانون اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین نے ’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی گفتگو میں اس بات سے اتفاق کیا کہ قدامت پسندی کے مقابلے میں اصلاح پسندی کی جیت ایرانی معاشرے میں تبدیلی کی عکاسی ہے۔ خواتین اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کر رہی ہیں، پارلیمانی سطح پر اصلاحات لائی جارہی ہیں، خواتین کو نمائندگی بھی مل رہی ہے، تعلیمی کوٹہ بھی ختم کردیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود حکومتی سطح پر ایران کی پالیسیاں وہی رہیں گی۔
’شیعہ علماء کونسل‘ کے سربراہ شبیر میثمی20سال سے زائد عرصے تک ایران میں مقیم رہے ہیں اور اب بھی تواتر سے وہاں آنا جانا رہتا ہے۔
وہ کہتے ہیں ’’تبدیلی وقت کا تقاضہ ہوتی ہے۔ ایرانی قوم سمجھ دار ہے اس نے بغیر کسی پریشر کے رائے دی ہے۔ لوگوں نے بہتر مستقبل کے حق میں رائے دی ہے۔ میرے خیال میں تو روشن انقلاب کا چہرہ سامنے آگیا۔ ’’لیکن میں ایران کو قریب سے جانتا ہوں وہاں پارلیمنٹ ہے، اصول ہے ، وہ اپنے جائز مطالبات سے نہیں ہٹیں گے۔‘‘
اپنی بات کی تائید میں انہوں نے جواز پیش کرتے ہوئے کہا ’’ایران پرامن نیوکلیئر ٹیکنالوجی چاہتا ہے۔ ڈیل ہوئی ہے تو وہ جوہری ہتھیار نہیں بنائے گا۔ وہ کسی ملک پر نہ تو حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے نہ ہی کسی کو اس سے خطرہ محسوس ہونا چاہئے ۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایران اپنے اصولوں سے نہیں ہٹے گا، اس کی بنیادی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی۔ ‘‘
مجلس وحدت المسلمین کے رہنما علامہ امین شہیدی کا کہنا ہے ’’انتخابی نتائج نے ایک بات تو ثابت کردی ہے کہ وہاں کے لوگ اعتدال پسندی کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ یہ جمہوریت کی جیت ہے۔ لیکن اعتدال پسندی کی کامیابی سپریم لیڈر خامنہ ای کی قدامت پسندپالیسی کی شکست نہیں۔ انہوں نے انقلاب کا نعرہ لگایا تھا اور پچھلے چھ ماہ میں انہوں نے اپنے کسی ویڈیو پیغام میں اس حوالے سے کوئی تاثر تک نہیں دیا کہ ان کا جھکاؤ کس جانب ہے۔ ان کا تو یہ کہنا ہے کہ ایران کو دستور کے مطابق چلایا جائے۔‘‘
ڈپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز یونیورسٹی آف کراچی کی چیئرپرسن، پروفیسر اور بین الاقوامی لاء پر یو این فیلوشپ کی حامل، شائستہ تبسم نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا ’’صدر حسن روحانی کی کامیابی کی دو اہم وجوہات ہیں۔ ایک وہ معاشی اصلاحات جن کی بدولت امریکہ سے کامیاب نیوکلیئر ڈیل ہوئی، اقتصادی پابندیاں ختم ہوئیں اور دوسری خواتین کے حقوق سے متعلق ان کا مثبت نظریہ۔ ‘‘
شائستہ تبسم نے بتایا ’’انتخابی مہم کے دوران بھی حسن روحانی نےاس بات پر زور دیا کہ خواتین اور مردوں میں کوئی صنفی امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے خواتین کو پیغام دیا کہ وہ ہر معاملے میں اپنی شرکت کو ممکن بنائیں۔اس مہم اور نظریئے کی بدولت آج ایرانی خواتین بہت فعال نظر آتی ہیں۔ حتیٰ کہ حسن روحانی کو جو ووٹ پڑے وہ بھی خواتین کی طرف سے زیادہ پڑے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ’’حسن روحانی نے پارلیمانی سطح پر بھی خواتین کو نمائندگی دلوائی۔ تعلیمی اداروں سے خواتین کا مخصوص کوٹہ ختم کیا۔ اس کے علاوہ وہ جلد ہی گھریلو تشدد کے خلاف اور دفاتر و عوامی مقامات سمیت ہر جگہ خواتین کے تحفظ کا بل پاس کرانے والے ہیں۔ ایرانی خواتین نے ان پالیسیوں کو پذیرائی بخشی اور انتخابات کی صورت میں ان پر مہرثبت کی۔ اس سے واضح یہی ہوتا ہے کہ عوام تبدیلی چاہتی ہے۔ یہ قدامت پسندی اور اصلاح پسندی کے درمیان ایک ریفرنڈم تھا جس میں سے ایرانی عوام نے اصلاح پسندی کو چنا۔‘‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ایرانی خواتین کا ڈریس کوڈ انقلاب کا تحفہ تھا۔ حجاب پہننا لازمی بنا دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے قانونی حقوق بھی کم کردیئے گئے تھے۔ پھر قانونی پابندیاں بھی عائد کردی گئی تھیں۔ خواتین نے جس چیز پر سب سے آواز بلند کی ہے وہ یہی ہے کہ ڈریس کوڈ کی پابندی ختم کی جائے اور انہیں بھی اپنی مرضی کا لباس پہننے کی اجازت دی جائے۔ حقوق نسواں کا یہ سب سے بڑا مطالبہ ہے۔ آج کی ایرانی خواتین ہر قسم کے حقوق چاہتی ہیں۔ آنے جانے اور گھومنے پھرنے کی آزادی چاہتی ہیں۔ وہ ہر سطح پر صنفی امتیازکی مخالف ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ تبدیلی کی جانب بہت بڑا اشارہ ہے ۔‘‘
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ مشرق وسطیٰ کا خطے اور عرب ممالک پر لازمی اثر پڑے گا۔ لیکن ایران میں تھوڑا بہت امریکی مخالف ماحول تو شروع سے ہی رہا ہے کیوں کہ یہاں کا سیاسی ماحول ایک انقلاب کی دین ہے۔ اور وہ سارا کا سارا کبھی بھی ’پرو امریکن‘ نہیں ہوسکتا۔ پبلک میں مخالفت موجود ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ تمام ایرانی شہری امریکن نواز ہوجائیں کیوں کہ اصلاح پسند ہوں یا قدامت پسند، ہیں تو سب انہی کے ماننے والے۔‘‘
بین الاقوامی تعلقات میں ایم فل کرنے والی کراچی کی ایک طالبہ شیما صدیقی کا کہنا ہے’’حسن روحانی نے مطلوبہ تعداد سے بھی زیادہ ووٹ یا سادہ اکثریت سے انتخابات جیت کر سب کو حیران کر دیا ہے۔ ایسے معاشرے میں جہاں 1979سے سخت دینی و مذہبی قوانین رائج تھے اور ان سے ہٹ کر سوچنا تک محال تھا اصلاح پسندی کی جیت ایران کا ایک نیاچہرہ ہی تو ہے۔‘‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’حسن روحانی کو اپنی اصلاحات کے مکمل نفاذ کے لئے چار سال کم تھے اس لئے عوام نے انہیں مزید چار کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ حسن روحانی کی اصلاح پسندانہ سوچ کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق حسن روحانی کی ایک انتخابی ریلی کے دوران ہلکی پھلکی اور روایتی موسیقی کا بھی اہتمام کیا گیاتھا۔‘‘