رسائی کے لنکس

شطرنج کے عالمی مقابلے میں بغیر حجاب شرکت کرنے والی ایرانی کھلاڑی اسپین منتقل


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایران کی شطرنج کی بین الاقوامی خاتون کھلاڑی دھمکیاں ملنے کے بعد منگل کو اسپین پہنچ گئی ہیں ۔ ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ قازقستان میں شطرنج کے عالمی مقابلے میں بغیر حجاب کے شرکت پر انہیں وطن واپس نہ آنے کا کہا جا رہا تھا۔

سارہ خادم کی عمر 25 برس ہے اور انہوں نے گزشتہ ہفتے شطرنج کے بین الاقوامی مقابلوں میں حجاب پہنے بغیر ایران کی نمائندگی کی تھی۔

ایران میں خواتین کے لباس کے سخت اصولوں کے تحت مکمل حجاب لازم ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق سارہ خادم کے قریبی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ایران کی شطرنج کی اس نوجوان کھلاڑی کو عالمی مقابلوں میں شریک ہونے کے بعد انہیں نامعلوم نمبروں سے متعدد ٹیلی فون کالز موصول ہوئیں کہ وہ ایران واپس نہ آئیں۔

رپورٹ کے مطابق بعض ٹیلی فون کالز میں سارہ کو یقین دہانی کرائی گئی کہ وہ واپس آ جائیں 'ان کا مسئلہ حل کر لیا جائے گا۔'

رائٹرز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ سارہ کے والدین اور دیگر رشتے دار ایران میں ہی مقیم ہیں اور انہیں بھی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ البتہ اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

ایران کی وزارتِ خارجہ یا دیگر حکام کی جانب سے سارہ کو ملنے والی دھمکیوں کے الزامات پر کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔

سارہ کے منگل کو اسپین پہنچنے سے قبل ہی مقامی ذرائع ابلاغ میں پہلے ہی یہ خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں کہ سارہ خادم اسپین منتقل ہو رہی ہیں اور وہ واپس ایران نہیں جائیں گی۔

’رائٹرز‘ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ سارہ خادم کو دھمکیاں ملنے کے بعد شطرنج کا بین الاقوامی مقابلہ کرانے والی انتظامیہ نے حفاظتی اقدامات کیے اور ان کے ہوٹل کے کمرے کے باہر سیکیورٹی گارڈز تعینات کر دیے گئے۔

شطرنج کے بین الاقوامی کھلاڑیوں کی فہرست مرتب کرنے والی تنظیم ’انٹرنیشنل چیس فیڈریشن‘ کی ویب سائٹ کے مطابق سارہ خادم عالمی فہرست میں 804 نمبر پر ہیں۔

سارہ اکتوبر 2016 میں تہران میں ہونے والے شطرنج ایک مقابلے میں شریک ہیں۔
سارہ اکتوبر 2016 میں تہران میں ہونے والے شطرنج ایک مقابلے میں شریک ہیں۔

حجاب تنازع کے شکار ہونے والی سارہ ایسے موقع پر اسپین پہنچی ہیں جب ایران میں پہلے ہی حجاب کے معاملے پر گزشتہ کئی ماہ سے احتجاج جاری ہے۔

ایران میں یہ مظاہرے ستمبر 2022 میں اُس وقت شروع ہوئے تھے جب ایک 22 سالہ خاتون مہسا امینی کو تہران میں اخلاقی پولیس نے لباس مناسب انداز سے نہ پہننے پر حراست میں لیا تھا جب کہ دوران حراست مبینہ تشدد سے ان کی موت واقع ہوئی تھی۔

ان کی موت کے بعد ایران میں مظاہرے شروع ہوئے اور کئی مقامی کھلاڑیوں نے بھی احتجاج کی حمایت کی، جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ ان خواتین نے بین الااقوامی مقابلوں میں بغیر حجاب کے شرکت کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا۔

دنیا کے کئی ممالک میں ایران میں ہونے والے مظاہروں کی حمایت کی گئی۔

ایران میں احتجاج میں شریک دو افراد کو سرِ عام پھانسی دی جا چکی ہے، ان پر سیکیورٹی اہلکاروں پر حملوں کا الزام عائد کیا گیا تھا جب کہ مزید دو افراد کو پھانسی دیے جانے کا خدشہ ہے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ایران میں احتجاج کے دوران ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جو اب بھی حراست میں ہیں۔

دنیا کے کئی ممالک نے ایران کے احتجاج کے خلاف اقدامات کی مذمت کی ہے اور شہریوں کے حقوق کا خیال رکھنے پر زور دیا ہے۔

امریکہ کا محکمۂ خارجہ بھی کہہ چکا ہے کہ امریکہ دوسرے ممالک کی اس بارے میں حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ ایران میں ان بہادر مظاہرین کا ساتھ دیں جواپنے ان حقوق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔ یہ وہ حقوق ہیں جو دنیا بھر کے لوگوں کے لیے یکساں ہیں۔

XS
SM
MD
LG