انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ اس کرد طالب علم کو سزا دینے کا اپنا منصوبہ ختم کردے جن پر ایک علیحدگی پسند ایرانی کرد تنظیم کے ساتھ تعاون کا الزام ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ایرانی حکام حبیب اللہ لطیفی کو کردستان کے مغربی صوبے کی ایک جیل میں اتوار کے روز پھانسی دینا چاہتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایک عہدے دار جو سٹورک نے کہاہے کہ لطیفی کوجن حالات میں گرفتارکیا گیا اور سزا سنانی گئی ، ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی حکام نے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی تھی۔ سٹورک کا کہنا ہے کہ ایرانی ایجنٹوں نے لطیفی پر تشدد کیا اور عدالت نے کسی ثبوت کے بغیر اسے موت کی سزا سنائی ۔
انسانی حقوق کی ایک اور تنظیم ایمسٹی اٹنرنیشنل بھی ایران پر یہ زور دے چکی ہے کہ وہ لطیفی کی سزائے موت پر عمل درآمد نہ کرے۔
لطیفی جنوب مغربی ایرانی صوبے ایلام کی آزاد یونیورسٹی میں قانون کا طالب علم تھا۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اسے 2007ء میں مبینہ طورپر انقلاب مخالف تنظیموں کی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر گرفتار کیا گیاتھا۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ مقدمے کی عدالتی کارروائی کے دوران حکومت نے مبینہ طورپر اس پر دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہونے کاالزام عائد کیا جس میں ایک پراسیکیوٹر کے قتل کی کوشش اور کرد صوبے کے ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کرنے کاالزام بھی شامل تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ لطیفی کو کرد عسکریت پسند گروپ سے مبینہ تعلق کے الزام میں گرفتار کیا گیاتھا اور اسے 2008ء میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ 2009ء میں اپیل کورٹ نے اس کی سزا بحال رکھی تھی۔