’وال سٹریٹ جرنل ‘ کی ایک رپور ٹ کے مطابق چین اور روس ایران کے خلاف تعزیرات نافذ کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
اوباما انتظامیہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کا خیال تھا کہ جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی نے ایران کی جوہری سرگرمیوں کے بارے میں جو تازہ رپورٹ دی ہے اُسے ایران کے خلاف زیادہ سخت اقتصادی ااور مالیاتی تعزیرات لگانے کی غرض سے استعمال کیا جا ئے گا۔ اس رپورٹ کے مطابق ایران نے ایسے تجربے کئے ہیں،جن کامقصد جوہری ہتھیار بنانے کے لئے استعمال ہونے والی کلیدی ٹیکنالوجی کو فروغ دینا تھا۔رپورٹ کے بقول، ایران نے خاص طور پر درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے ایسے مزائیلوں کی آزمایش کی تھی جو جوہری ہتھیار لے سکیں۔
اس کے علاوہ اوباما انتظامیہ کا تہران کے خلاف اس بنا پراضافی تعزیرات لگانے کا مطالبہ بھی تھا کہ اس نے واشنگٹن میں سعودی سفیر کو قتل کرنے کی سازش کی تھی۔
لیکن اخبار کے مطابق جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے اندر روس اور چین نے نئی رپورٹ کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے نئی تعزیرات لگانے کی افادیت کو چیلنج کیا ہے۔ ماسکو بین الاقوامی مذاکرات دوبارہ شروع کرنا چاہتا ہے، تاکہ ایران بعض تعزیرات ہٹائے جانے کے عوض اس ادارے کےسوالات کا جواب دے سکے۔ امریکہ اور یورپی اتّحاد کے ملکوں نے اس روسی تجویز کی طرف سرد مہری کا اظہار کیا ہے۔
اخبار کہتاہے کہ اس ادارے کے بورڈ نے ایران کے خلاف کبھی کوئی ایسی قرارداد منظور نہیں کی ہے جسے ماسکو ، بیجنگ ، کیوبا ، وینیزویلا جنوبی افریقہ، اور ان ملکوں کی حمایت حاصل نہ ہو،جو ایران کے خلاف تعزیرا ت لگانے کی مزاحمت کرتے ہیں۔ لیکن یورپی سفارت کاروں کا استدلال ہے کہ اگر ایران کی سخت الفاظ میں مذمّت نہ کی گئی تو اسرائیل میں ایران کے جوہری ڈھانچے کے خلاف فوجی کاروائی کرنے پر بحث تیز ہو جائے گی ۔
جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے اجلاس کے بعد اگلے ہفتے ادارے کے ارکان کی ایک میٹنگ میں مشرق وسطیٰ میں جوہری ہتھیاروں سے پاک علا قہ قائم کرنے پر غور کیا جائے گا۔ وال سٹریٹ جرنل کہتا ہے کہ عرب ملکوں نے بالاصرار ایسی کانفرنس کا مطالبہ کیا ہے تاکہ نہ صرف ایران بلکہ اسرائیل پر بھی دباؤ ڈالا جائے ، کہ وہ اپنے اپنے جوہری پروگراموں کے بارے میں زیادہ شفافیت سے کا م لیں۔
’ ڈیٹرائیٹ نیوز‘ میں کالم نگار میتِھیو لی رقمطراز ہیں کہ دنیا کا واحد سوپر پاور دنیا کےایک نہایت ہی پیچیدہ معاملے میں اپنے آپ کو بے بس پا رہا ہے اور امریکہ، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کو امن کی ان کوششوں کے مفادات کے خلاف جانے سے باز نہیں رکھ سکتا جو امریکہ کی پوری حمایت سے شروع کی گئی تھیں۔
فلسطینی اقوام متحدہ سے اپنے آپ کو تسلیم کرانے اور اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کی رکنیت حاصل کرنے میں مصروف ہیں ۔۔ جب کہ اس کے جواب میں اسرائیلی یہودی بستیوں کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں اور انہوں نے فلسطینیوں کے ٹیکس کے حصّے کی ادائیگی روک رکھی ہے۔
مضمون نگار کا کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے یا تو تیار نہیں یا پھر وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے اور نا ہی وہ انہیں ایسی کاروائی سے باز رکھنے کی حیثیت میں ہے ، جس سے تعطّل کا شکار امن مذاکرا ت دوبارہ شروع کرنے کا عمل مزید مجروح ہوتا ہو ۔ باوجودیکہ امریکہ کے پاس مالی امداد ، فوجی تحفّظ ، اور سفارتی طاقت حربے ہیں۔ وہ موجودہ بحران سے الگ ہو کر بیٹھا ہوا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ کئی ماہ کی لابی اِنگ کے باوجود امریکہ فلسطینیوں کو یونیسکو کی رکنیت حاصل کرنے سے باز نہ رکھ سکا،جو انہیں 14 کے مقابلے میں 107 ووٹوں کی اکثریت سے ملی ۔
اخبار کہتا ہے کہ غیر یقینی بجٹ اور آنے والے انتخابات کے پس منظر میں اوباما انتظامیہ کی مشکل یہ ہے کہ کانگریس اسرائیل کی گوشمالی کر نے کے لئے تیا رنہیں،اور اقوام متحدہ میں فلسطینیون کے عزائم کے لئے ان کو سزا دینے پر تلی ہوئی ہے ۔ اور اس طرح، انتظامیہ کی پوزیشن سفارتی طور پر کمزور اور پریشان کن ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: