رسائی کے لنکس

ایران نے فوجی تنصیبات سے متعلق الزامات کو مسترد کر دیا


امریکہ میں قائم ’انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سکیورٹی‘ نے خیال ظاہر کیا کہ ایران عالمی معائنہ کاروں کے دورے سے پہلے فوجی تنصیبات سے شواہد مٹانے کے کام میں مصروف ہے۔

ایران کے وزیر خارجہ نے ہفتہ کو کہا کہ پارچین فوجی تنصیبات پر سرگرمی کے الزامات جوہری معاہدے کے مخالفین کی طرف سے پھیلایا گیا ’جھوٹ‘ ہے۔

گزشتہ ماہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدہ طے پایا تھا جسے منظور یا مسترد کرنے کے لیے اگلے ماہ امریکی کانگریس میں رائے شماری کی جائے گی۔

ایران کی اہم فوجی تنصیبات کا مرکز پارچین تہران سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ پارچین میں حال ہی میں سیٹلائٹ کے ذریعے کچھ سرگرمی دیکھی گئی جس کے متعلق ایران نے وضاحت کی کہ یہ سرگرمیاں سڑک کی تعمیر سے متعلق ہیں۔

مگر ایک معروف امریکی تھنک ٹینک نے جمعہ کو پارچین میں سیٹلائٹ کے ذریعے دیکھی گئی سرگرمی کی ایرانی وضاحت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا نہیں لگتا کہ گاڑیوں کی نقل و حرکت سڑک کی تعمیر سے متعلق ہے۔

امریکہ میں قائم ’انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سکیورٹی‘ نے خیال ظاہر کیا کہ ایران عالمی معائنہ کاروں کے دورے سے پہلے وہاں شواہد مٹانے کے کام میں مصروف ہے۔

مگر ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’’انہوں (معاہدے کے مخالفین) نے یہ جھوٹ پہلے بھی پھیلائے تھے۔ ان کا مقصد معاہدے کو نقصان پہنچانا ہے۔‘‘

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے جوہری توانائی نے 14 جولائی کو طے پانے والے معاہدے میں پارچین تنصیبات تک رسائی کی درخواست کی تھی۔

ایران کی پارلیمان کے اسپیکر نے بھی ان الزامات کی تردید کی ہے۔

علی لاراجانی نے ’فارس نیوز ایجنسی‘ کو بتایا کہ ’’یہ ایک مصنوعی جھگڑا ہے تاکہ دنیا کہ توجہ ہٹائی جا سکے۔ پارچین میں کچھ سرگرمی جاری ہے مگر ان سرگرمیوں کو فوجی تنصیبات سے جوڑنا اور اس پر شور مچانا پریوں کی داستان لگتا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’اسرائیل اس معاہدے سے خوش نہیں اور وہ اسے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘

اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو امریکی قانون سازوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ جوہری معاہدے کی مخالفت کریں کیونکہ وہ اسے اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔

کچھ اسرائیل نواز گروپ امریکی کانگریس کو اس معاہدے کو مسترد کرنے پر قائل کرنے کے لیے ایک اشتہاری مہم پر لاکھوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG