امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف سے پیر کو دوبارہ سویٹزرلینڈ میں ملاقات کر رہے ہیں جہاں وہ ایران کے جوہری پروگرام پر ہونے والے طویل عرصے سے جاری مذاکرات میں غیر معمولی پیش رفت کی کوشش کریں گے۔
دونوں ممالک کے سفارت کار اور ماہرین وزرائے خارجہ کے آنے سے پہلے ہی سویٹزرلینڈ میں اتوار کو مذاکرات کا آغاز کر چکے ہیں۔ ان کے پاس اب کسی بنیادی معاہدے تک پہنچنے کے لیے صرف دو ہفتے بچے ہیں جس میں ایران اقتصادی پابندیاں اٹھائے جانے کے عوض اپنے جوہری پروگرام کو پرامن رکھنے کی ضمانت دے گا۔
جان کیری نے اتوار کو کہا تھا کہ معاہدے میں حائل زیادہ تر رکاوٹیں تکنیکی نہیں بلکہ سیاسی نوعیت کی ہیں۔
انہوں نے ’سی بی ایس‘ ٹیلی وژن چینل کے پروگرام ’فیس دی نیشن‘ میں بتایا کہ ’’یہ واضح ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان کچھ اختلافات کا فیصلہ تکنیکی بنیادوں پر ہو گا مگر کم و بیش اکثر اختلافات کا حل سیاسی فیصلوں سے ہو گا ۔۔۔ جن سے دنیا کے لیے یہ ثابت کیا جا سکے کہ ایران کا جوہری پروگرام پُر امن مقاصد کے لیے ہے۔‘‘
امریکی سینیٹ میں رپبلیکن رہنما مِچ میکونل نے ان مذاکرات کے خلاف ایک بیان میں ’س این این‘ کو بتایا کہ صدر اوباما تہران سے ایک ’’بہت برا معاہدہ‘‘ کرنے جا رہے ہیں۔
جان کیری نے کہا تھا کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ 46 رپبلیکن سینیٹروں کی جانب سے ایران کو لکھا گیا مراسلہ ایران کے ساتھ مذاکرات کو متاثر کرے گا یا نہیں۔ پچھلے ہفتے ان سینیٹروں نے ایران کو متنبہ کیا تھا کہ اگلا امریکی صدر ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو منسوخ کر سکتا ہے۔ تاہم جان کیری نے اس بیان کو چیلنج کیا تھا۔
ایران کہتا رہا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی منصوبہ بندی نہیں کر رہا اور اس کا جوہری پروگرام بجلی کی پیداوار اور طبی ریسرچ ایسے پر امن مقاصد کے لیے ہے۔