رسائی کے لنکس

ایران کا متنازع جوہری پروگرام: 2012ء کے حقائق


رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنائی (فائل فوٹو)
رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنائی (فائل فوٹو)

اس مسئلے کے حل کے لیے مغربی اقوام اور ایران کے درمیان کئی بار مذاکرات ہوچکے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی ایسا معاہدہ طے نہیں پاسکا ہے جو سب فریقوں کو مطمئن کرسکے

ایران کا جوہری پروگرام ایک عرصے سے متنازع بنا ہواہے۔ مغربی اقوام کو شبہ ہے کہ ایران اپنے اس پروگرام کو درپردہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے استعمال کررہاہے جب کہ ایران کا موقف ہے کہ اس کا پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اوروہ اس سے اپنی توانائی کی بڑھتی ہوتی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ طبی اور سائنسی شعبے میں اپنی تحقیق کو آگے بڑھانا چاہتا ہے۔

ایران کو یورینیم کی افزودگی سے روکنے کے لیے اس کے خلاف اقوام متحدہ، یورپی یونین اور امریکہ کئی پابندیاں عائد کرچکاہے اور کچھ عرصہ قبل تیل خریدنے والے ممالک کو بھی متنبہ کیا گیا تھا کہ وہ ایرانی تیل کی خریدسے باز رہیں۔

اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے مغربی اقوام اور ایران کے درمیان کئی بار مذاکرات ہوچکے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی ایسا معاہدہ طے نہیں پاسکا ہے جو سب فریقوں کو مطمئن کرسکے۔

ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق اس سال کے چند حقائق یہ ہیں۔

جنوری: جوہری توانائی کے عالمی ادارے نے تصدیق کی کہ ایران یورینیم کی 20 فی صد کی سطح تک افزدوگی کررہاہے۔

فروری: اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے ایران کے متنازع جوہری فوجی مقام پارچین کا معائنہ کیے بغیر تہران سے اپنے مذاکرات ختم کردیے۔

مارچ: عالمی طاقتوں نے ایران کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور ایران نے یہ عندیہ دیا کہ وہ پارچین کی تنصیب تک جوہری انسپکٹروں کو مشروط رسائی دے گا۔

اپریل : ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ ایران اپنے جوہری حقوق سے دستبردار نہیں ہوگا۔

مئی: یورپی یونین کے عہدے داروں نے ایسے معاملات پر جس پر دونوں فریقوں کا اتقاق تھا، بغداد میں ایرانی عہدے داروں سے مذاکرات کیے۔

جون: برطانیہ، چین، فرانس، روس ، امریکہ اور جرمنی کے سفارت کاروں نے ماسکو میں ایرانی وفد سے بات چیت کی۔

جولائی: یورپی یونین نے ایرانی تیل کی درآمدت پر مکمل پابندی کا اطلاق کردیا اور امریکہ نے ایران کے خلاف اپنی پابندیاں کا دائرہ مزید بڑھا دیا۔
XS
SM
MD
LG