امریکہ نے ایران کے ساتھ کاروبار کرنے پر پاکستان کو اس کے مالیاتی شعبہ پر مرتب ہونے والے مضمرات پر غور کرنے کا انتباہ کیا ہے۔
یہ انتباہ امریکی محکمہ خزانہ کے انڈر سکریٹری برائے انسدادِ دہشت گردی و مالیاتی خفیہ اطلاعت کے ادارے کے ڈیوڈ کوہین نے پاکستانی افسروں اور مالیاتی شعبے کے نمائندوں کے ساتھ دو روزہ بات چیت کے دوران کیا جو جمعہ کو مکمل ہو گئی۔
اس بظاہر غیر اعلانیہ دورے کے اختتام پر امریکی سفارت خانے کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈیوڈ کوہین نے ایران کو اس کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے عالمی برادری کے تحفظات دور کرنے پر آمادہ کرنے کی غرض سے امریکہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں پر پاکستانی ہم منصبوں سے تبادلہ خیال کیا۔
’’اس کے علاوہ اُنھوں نے پاکستانی مذاکرات کاروں کو ایران کے ساتھ کاروبار کرنے پر پاکستان کے مالیاتی شعبہ پر مرتب ہونے والے مضمرات پر غور کرنے پر بھی زور دیا۔‘‘
بیان کے مطابق امریکی انڈر سیکرٹری نے بات چیت میں ان طریقوں کا جائزہ بھی لیا جن کے ذریعے امریکہ اور پاکستان دہشت گرد گروپوں اور دوسرے غیر قانوی عناصر کو امریکی، پاکستانی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے استحصال سے روکنے کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں۔
’’اُنھوں نے ... ملاقاتوں میں اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے جانے والے گروپوں کو یہاں کے مالیاتی شعبے کی وساطت سے فنڈ اکٹھا کرنے اور رقوم کی منتقلی کو روکنے کو یقینی بنانے کی اہمیت پر بات چیت کی۔‘‘
امریکہ نے پاکستان کو ایران کے ساتھ کاروبار پر تنبیہ ایک ایسے وقت کی ہے جب پاکستانی آموں کی ایرانی منڈیوں کو برآمد اور ایرانی بجلی کی درآمد کی کوششوں میں تیزی آئی ہے۔
لیکن پاکستان میں پھلوں اور سبزیوں کے تاجروں کی نمائندہ تنظیم کے چیئرمین وحید احمد یہ کہہ چکے ہیں کہ بین الاقوامی تعزیرات کے خوف سے مقامی کمرشل بینک برآمد کنندگان کو ’ایکسپورٹ فارم‘ جاری کرنے سے گریزاں ہیں، جب کہ اُن کے بقول مرکزی اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اُنھیں مطلع کیا ہے کہ نجی بینکوں کو ایران کے ساتھ تجارت نا کرنے کے بارے میں کوئی ہدایات جاری نہیں کی ہیں۔
رواں ہفتے وائس اف امریکہ سے گفتگو میں وحید احمد نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس سال ہزاروں ٹن آم ایران برآمد نہیں کیا جا سکے گا، جس سے ملک ایک کروڑ ڈالر مالیت کے زرِ مبادلہ سے محروم ہو سکتا ہے۔