امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کے ساتھ نیوکلیئر پروگرام اور انسانی حقوق کے سوال پر ایران کے اختلافات جاری ہیں۔لیکن گذشتہ 12 مہینوں کے دوران ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں اور زیادہ سخت کیئے جانے کے باوجود، ایسا لگتا ہے کہ سفارتی تعطل اگلے سال کے دوران بھی جاری رہے گا۔
ایران ایک عرصے سے کہتا رہا ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام پُر امن مقاصد کے لیئے ہے اور اس نے مغربی ملکوں کے ان الزامات سے انکار کیا ہے کہ وہ نیوکلیئر ہتھیار بنانا چاہتا ہے ۔
دسمبر کے شروع میں ایرانی عہدے دار مذاکرات کے لیئے جنیوا میں چھ بڑی طاقتوں، امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے نمائندوں سے ملے۔ لیکن ایران صرف اس بات پر رضامند ہوا کہ وہ جنوری میں استنبول میں پھر میٹنگ میں شریک ہوگا اور اس کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ، سعید جلیلی نے کہا کہ ایران یورینیم کو افزودہ کرنے کے پروگرام پر کام بند نہیں کرے گا ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ایسے مذاکرات کو تسلیم نہیں کرتے جن میں دوسرا فریق یا فریقین اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیئے دباؤ استعمال کریں گے ۔ ہم ایسی کسی کوشش میں شامل نہیں ہوں گے۔
امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، سب نے گذشتہ سال کے دوران ایران کے خلاف پابندیوں میں اضافہ کر دیا ہے ۔
جولائی میں صدر براک اوباما نے اس قانون پر دستخط کیئے جن کا مقصد ایران کے توانائی اور بنکاری کے شعبوں کو نشانہ بنانا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی غیر ملکی کمپنیوں کے لیئے ایران کے ساتھ کاروباری سودے کرنا بہت زیادہ مشکل ہو گیا ہے ۔ مشرقِ وسطیٰ کے امور کی ماہر روزمیری ہولس کہتی ہیں کہ آپ دیکھ چکے ہیں کہ پابندیوں کی شکل میں ایران پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے، اور دوسرے ملک حیران کن حد تک متحد ہو کر دباؤ میں اضافے کے لیئے تیار ہو گئے ہیں۔ لیکن آپ نے یہ بھی دیکھا ہو گا کہ اگرچہ ایران کی معیشت کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے، وہ بظاہر، اپنی پالیسی کی حد تک، ان پابندیوں سے متاثر ہوتا نظر نہیں آتا۔
ہولس کہتی ہیں کہ اختلافات کے باوجود، اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ یہ جھگڑا سفارتی سطح پر ایک دوسرے پر الزام تراشی کی حد سےآگے بڑھے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسی علامتیں نظر آ رہی ہیں کہ جنگ کے امکانات کم ہو گئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ایرانیوں کو ٹکنالوجی کے شعبے میں سنگین مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے آثار بھی ہیں کہ ان کے کمپیوٹرز پر ایک وائرس کا حملہ ہوا تھا جس سے وہ سافٹ ویئر متاثر ہوا جس پر ان کا پورا پروگرام چلتا ہے ۔
حال ہی میں امریکہ کے جو خفیہ سفارتی کیبل غیر قانونی طور پر شائع کیئے گئے ہیں، ان میں کچھ ایسے کیبل بھی ہیں جن میں سعودی عرب کے بادشاہ عبد اللہ نے امریکہ پر ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو تباہ کرنے کے لیئے بار بار زور دیا ہے ۔ انٹیلی جنس کے تجزیہ کار بوب ایئرز کہتے ہیں کہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام سے علاقے کے ملکوں کے خوفزدہ ہونے کی بات سمجھ میں آتی ہے۔
ان کا کہناتھا کہ علاقے میں ایران کا نیوکلیئر طاقت ہونا عدم استحکام کا باعث ہوگا۔ عرب ممالک از خود ایران کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس لیئے وہ امریکہ پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ایران کو نیوکلیئر اسلحہ تیار کرنے سے روکنے کے لیئے اقدام کرے۔
امریکہ کے ساتھ ایران کے تعلقات دو امریکیوں کی مسلسل حراست کی وجہ سے مزید کشیدہ ہوئے ہیں۔ شین بیور اور جاش فیٹل پر 2009 میں غیر قانونی طور پر ایران میں داخل ہونے کا الزام ہے ۔ ستمبر میں تیسری امریکی شہری،ساراشورڈ کو رہا کر دیا گیا تھا۔ ان تینوں کا کہنا ہے کہ انہیں ایرانی سرحدی محافظوں نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ عراقی علاقے میں ہائکنگ کر رہے تھے۔
ایک ایرانی بیوہ اور دو بچوں کی ماں کے کیس پر بھی ساری دنیا میں توجہ مرکوز ہوئی ہے۔ سکینہ محمدی اشتیانی کو مبینہ بدکاری اور اپنے شوہر کی موت کے سلسلے میں سنگساری کی سزا دی گئی ہے لیکن اس پر عمل درآمد میں بار بار تاخیر ہوئی ہے۔بہرام سروش نے یور پ میں اشتیانی کی رہائی کی مہم چلائی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آج سکینہ زندہ ہیں، تو اس کی وجہ وہ مہم ہے جو ان کے لیئے چلائی گئی ہے۔
2009 کے صدارتی انتخاب کے بعد حکومت نے گرین موومنٹ کے تحت ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے خلاف سخت کارروائی کی تھی ۔ حزب اختلاف کے حامیوں کا اصرار ہے کہ اٹھارہ مہینے گذرنے کے بعد بھی، ان مظاہروں کی روح زندہ ہے ، تاہم فی الحال اقتدار پر ایرانی حکومت کی گرفت مضبوط ہے ۔