رسائی کے لنکس

ایران میں مظاہروں کے سلسلے میں سپین کے دو شہری گرفتار


سپین کےسینٹیاگو کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ عراقی کردستان سے ایران میں داخل ہوئے تھے۔
سپین کےسینٹیاگو کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ عراقی کردستان سے ایران میں داخل ہوئے تھے۔

انسانی حقوق کے گروپوں نے جمعرات کو اطلاع دی ہے کہ ایرانی سیکیورٹی فورسز نے ملک بھر میں جاری مظاہروں کے سلسلے میں دو ہسپانوی شہریوں کو گرفتار کر لیا ہے۔

انسانی حقوق کی خبر رساں ایجنسی ’ایچ آر اے این اے‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ ہسپانوی شہری اب بھی حراست میں ہیں، جب کہ ان کے بارے میں زیادہ تفصیلات نہیں ملیں۔

مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے سات ہفتے گزر جانے کے بعد بھی ایران بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ جہنیں حکومت سختی سے کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے سات ہفتے گزر جانے کے بعد بھی ایران بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ جہنیں حکومت سختی سے کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔

تازہ ترین گرفتاری 24 سالہ انا بنیرا کی تھی، ان کے خاندان کے قریبی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے ’ایچ آر اے این اے‘ کا کہنا ہے کہ انہیں احتجاج کے دوران حراست میں لیا گیا تھا اور وہ ابھی جیل میں ہیں ، لیکن کس تاریخ کو گرفتار کیا گیا اور وہ کس حال میں ہیں،کچھ پتا نہیں۔

ان کی گرفتاری 41 سالہ سانتیاگو سانچیز کے بعد ہوئی ہے جنہیں سقز شہر سے گرفتار کیا گیا تھا، جہاں وہ مہسا امینی کی قبر پر گئے تھے۔

22 سالہ مہسا امینی کو سر ڈھاپنے سے متعلق ایران کی اسلامی حکومت کے لباس کے قواعد کی پابندی نہ کرنے پر پولیس نے حراست میں رکھا اور مبینہ طور پر تشدد کیا ،جس کے باعث اس کی موت واقع ہوگئی۔ حکام ایسے کسی تشدد سے انکار کرتے ہیں۔

مہسا امینی کی بے رحمانہ ہلاکت کے بعد پورے ایران میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے ۔ رائٹرز نیوز سروس کی رپورٹ کے مطابق سانچیز نے آخری بار اپنی ایک تصویر عراق-ایران سرحدسے اپنے دوستوں کو بھیجی تھی جس کاعنوان تھا،ایران میں داخلہ۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے جمعرات کو راطلاع دی ہےکہ تہران میں سپین کے سفارت خانے، نے دونوں ہسپانوی شہریوں کی گرفتاری کی تصدیق کی اور کہا کہ اس کا عملہ اس سلسلے میں ایرانی حکام سے رابطے میں ہے۔

اے پی کی رپورٹ کے مطابق سانچیز ایران میں اس وقت داخل ہوئے جب وہ 2022 کے فیفا ورلڈ کپ فٹ بال ٹورنامنٹ کے لیے میڈرڈ سے دوحہ جا رہے تھے۔

’ایچ آر اے این اے‘نے جمعرات کو یہ بھی اطلاع دی کہ سیکیورٹی فورسز نے ایرانی پہلوان نوید افکاری، جسے 2020 میں قتل کا جرم ثابت ہونے کے بعد پھانسی دی گئی تھی، کی بہن الہام افکاری کو گرفتار کیا ہے ۔

ایرانی حکومت سے وابستہ نیوز ایجنسیوں نے اطلاع دی ہے کہ الہام افکاری کو سرحد پر اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ملک چھوڑنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ انہوں نےان پر لندن میں قائم فارسی نشریاتی ادارے ایران انٹرنیشنل کی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا۔

اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے، ایران انٹرنیشنل نے واضح طور پر ،اسلامی جمہوریہ کے اس دعوے کی تردید کی کہ الہام افکاری نے ان کے نشریاتی ادارے کے ساتھ کام کیا یا اس کے ساتھ کسی قسم کا تعاون کیا۔

سرکاری میڈیا نے افکاری کی گرفتاری کی تصویریں جاری کی ہیں ، جس میں وہ ایک سیکیورٹی گاڑی میں پیچھے بند کھڑکی کے ساتھ بیٹھی ہیں اور ان کے چہرے پر بڑی سیاہ پٹی بندھی ہوئی ہے۔

لیکن ان کے بھائی سعید افکاری نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ان کی بہن، اس کے شوہر اور ان کے 3 سالہ بیٹے کو جنوبی شہر شیراز سے گرفتار کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے بھی ان واقعات کے بارے میں ایرانی سرکاری میڈیا کے موقف سے اختلاف کیا ہے

ایران انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ الہام کے بھائی ریسلر نوید افکاری کو ستمبر 2020 میں احتجاجوں میں حصہ لینے کے بعد، ایک سرکاری ملازم کو قتل کرنے کا الزام لگا کر پھانسی دے دی گئی تھی۔ اس پھانسی کی ، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر شدید مذمت کی گئی تھی۔

نیوز آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق افکاری کے دو دوسرے بھائی اب بھی جیل میں ہیں اور ان دونوں کو 6ْ/6 سال کی مدت کے لیے سزا دی گئی ہے اور انہیں جیل میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خاندان کو چار سال سے زائد عرصے سے اذیتیں دی جارہی ہیں ۔

یہ مظاہرے 2009 کی سبز تحریک کے مظاہروں کے بعد ایران کے اقتدار اعلیٰ کے لیے ملک میں سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ پیر کے روز تیل کے دو اہم کارخانوں کے کارکنوں نے ملک میں جاری مظاہروں میں شرکت کی اور پہلی بار ایک اہم صنعت کو حکمرانوں کے خلاف احتجاج میں شامل کر دیا۔

اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات دی ایسوسی ایٹڈ پریس اور رائٹرز سےلی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG