رسائی کے لنکس

امریکہ ایران تناؤ سے ایرانی نژاد امریکیوں کے مسائل بڑھ گئے


تہران میں واقع امریکہ کا سفارت خانہ، جو کئی عشروں سے بند پڑا ہے۔
تہران میں واقع امریکہ کا سفارت خانہ، جو کئی عشروں سے بند پڑا ہے۔

1979 میں جب سے تہران میں ایرانی طلبا نے امریکی سفارت خانے پر ہلہ بولا تھا اور 52 امریکی سفارت کاروں اور شہریوں کو 444 دن تک یرغمال بنایا تھا، تب سے ایران کے ساتھ امریکہ کے تعلقات انتہائی کشیدہ رہے ہیں۔ ان کشیدگیوں میں حال ہی میں اس کے بعد مزید اضافہ ہوا جب امریکہ نے ایران کے ایک اعلیٰ ترین جنرل کو عراق میں ہدف بنا کر ہلاک کرنے کی کارروائی کی۔

اس واقعے سے امریکہ میں مقیم بہت سے ایرانی امریکیوں کی پریشانی بڑھ گئی ہے جو پہلے ہی خود کو ایک کمزور ہدف سمجھ رہے تھے۔

امریکہ میں رہنے والے بہت سے ایرانی امریکیوں کے لیے امریکی اور ایرانی حکومت کے درمیان کشیدگیوں میں اضافے کے نتیجے میں پریشانی اور خوف میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ایک ایرنی نژاد امریکی سائنس دان سام سینائی کا کہنا ہے کہ میں جب یہاں آیا تو میں صرف یہی چاہتا تھا کہ سائنس کو ترقی دوں اور انسانیت کی کچھ اس طریقے سے کوئی خدمت کروں جس میں اس چیز کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے کہ لوگ کہاں سے آئے تھے۔ میں ایک تارک وطن ہوں۔ میں انسانیت کی مجموعی طور سے پرواہ کرتا ہوں اور میں نہیں چاہتا کہ میں ملکوں کے درمیان لڑائیوں کو پیش نظر رکھوں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس لیے مجھے واقعتاً امید تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم ہو جائے گی اور کم از کم اتنی زیادہ نہیں بڑھے گی کہ مجھے اس پر توجہ دینی پڑے گی۔ میں اپنی توجہ سائنس پر مرکوز رکھنا چاہتا ہوں۔

سینائی کہتے ہیں کہ جنگ کے خطرے کے باعث دونوں ملکوں کے شہریوں کے لیے چیلنج پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جب دو ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہوتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں اور ہمیں ڈر ہے کہ ہم نفرت کے ان جرائم کے شکار نہ ہو جائیں یا ایسا نہ ہو کہ جب ہم گھر جائیں تو ہم پر جاسوس ہونے کا الزام عائد کیا جائے۔ ہم دونوں جانب اپنی زندگیاں معمول کے مطابق گزارنا چاہتے ہیں لیکن ہم خود کو ناخوشگوار خطرات میں گھرا پاتے ہیں جس کے ہم حقدار نہیں ہیں۔

ایک ایرانی امریکی طالب علم اردلان امان، جو امریکہ میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے، کہتے ہیں کہ اگرچہ ابھی تک تو مجھے ذاتی طور پر یہ محسوس نہیں ہوا ہے کہ مجھے ہدف بنایا گیا ہے لیکن اس پورے ملک میں ان ایرانی امریکیوں کے بارے میں خبریں پڑھ رہا ہوں جنہیں برا بھلا کہا جا رہا ہے اور انہیں نامعلوم وجوہات کی بنا پر سرحد پر چیک کرنے کے لیے روکا جا رہا ہے اور اس سے مجھے واقعی افسوس اور مایوسی ہوتی ہے۔

اروین میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں زیر تعلیم ایرانی نژاد امریکی طالب علم احسن فرشچی کہتے ہیں کہ ہمیں اس بارے میں تفصیلی سوال کرنے چاہیئں کہ مسائل کیا ہیں اور ان کی اصل وجوہات کیا ہیں اور ہم انہیں کیسے حل کر سکتے ہیں۔ یہ جاری کشیدگی ہماری زندگی اور کام کرنے کے حوالے سے اچھی نہیں ہے کیوںکہ یہ معاشرے کے تمام طبقوں کو متاثر کرتی ہے۔ ایران میں مظاہرے ہوں یا پھر ہوائی جہاز کا یہ حالیہ مسئلہ، اس طرح کے واقعات ہم سب کو متاثر کرتے ہیں۔

ایک اور طاب علم علی کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ حکومت اور انتظامیہ کے لیے اس مسئلے کا سب سے بڑا حل یہ ہے کہ کمیونٹی کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت کا کوئی دروازہ کھول دیا جائے۔ ہمیں انتظامیہ کے رویے میں تبدیلی کے شواہد دیکھنے کی ضرورت ہے۔

XS
SM
MD
LG