ایران نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکہ خطے میں دہشت گردی بڑھانے اور پڑوسی ملکوں کو دھمکانے کے لیے افغانستان میں داعش کے جنگجووں کی مدد کر رہا ہے ۔
ایران کے وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف نے یہ الزام پیر کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران لگایا جس میں غیر ملکی سفارت کار، دانشور اور صحافی شریک تھے۔
ایرانی وزیرِ خارجہ اتوار کی شب تین روزہ دورے پر پاکستان پہنچے تھے جہاں انہوں نے پیر کو دورے کے پہلے روز اسلام آباد میں اپنے پاکستانی ہم منصب خواجہ آصف کے ساتھ وفود کی سطح پر مذاکرات کے علاوہ وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی سے بھی ملاقات کی۔
پیر کو تقریب سے خطاب میں ایرانی وزیرِ خارجہ نے دعویٰ کیا کہ امریکی ہیلی کاپٹر داعش کے جنگجووں کو افغانستان کے مشرقی ضلعے ھسکہ مینہ (دیہہ بالا) کی جیل سے نامعلوم مقام کی جانب لے جاتے دیکھے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران کو ملنے والی انٹیلی جنس معلومات اور عینی شاہدین کے بیانات کے مطابق داعش کے دہشت گردوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے میدانِ جنگ اور محصور علاقوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔
ایران اور روس اس سے قبل بھی افغانستان کے ان علاقوں میں نامعلوم ہیلی کاپٹروں کی پروازیں دیکھے جانے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں جہاں داعش کے جنگجو سرگرم ہیں۔
تاہم پیر کو اپنے خطاب میں ایرانی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اس بار ھسکہ کی جیل سے جنگجووں کو لے جانے والے ہیلی کاپٹر بغیر نام و نشان کے نہیں تھے بلکہ امریکی تھے۔
انہوں نے کہا کہ فی الحال وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ ہیلی کاپٹر جنگجووں کو کہاں لے کر گئے لیکن ان کے بقول اس منتقلی کے نتائج سب جانتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان میں پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا اور ان واقعات میں فرقہ واریت کا رنگ بھی نمایاں رہا۔
امریکہ روس اور ایران کے ان الزامات کی ماضی میں بھی تردید کرتا رہا ہے اور اس کا موقف ہے کہ وہ افغانستان کے صوبے ننگر ہار میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کرتا رہا ہے۔ ھسکہ منیہ کا ضلع بھی ننگر ہار میں واقع ہے۔
گزشتہ چند مہینوں کے دوران ننگر ہار میں داعش کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے اور شدت پسند تنظیم ننگر ہار کو افغانستان کے دیگر علاقوں پر حملوں کے لیے بطور لانچنگ پیڈ استعمال کرتی آئی ہے۔
داعش کے خلاف ننگر ہار میں کارروائیوں کے دوران افغان فورسز کو امریکہ کی فضائی مدد بھی حاصل رہی ہے جب کہ امریکی فوجی اہلکار افغان فورسز کے ساتھ برسرِ زمین بھی داعش کے خلاف کارروایوں میں شریک رہے ہیں۔
گزشتہ سال دنیا بھر میں برسرِ پیکار امریکی فوجیوں کی سب سے زیادہ تعداد ننگر ہار ہی میں ہلاک ہوئی تھی۔
گزشتہ برس وسطی ایشیائی ریاستوں سے منسلک افغانستان کے صوبے جوزجان میں بھی داعش کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا تھا جس نے روس کے حکمران حلقے میں خطرے کی گھنٹیاں بجادی تھیں۔
گزشتہ ماہ کابل میں ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس کے دوران افغان حکومت کے مشیر برائے قومی سلامتی حنیف اتمر نے تہران اور ماسکو کو داعش کے جنگجووں کی بغیر نام و نشان والے ہیلی کاپٹروں میں منتقلی کے الزامات کی مشترکہ تحقیقات کی پیشکش بھی کی تھی۔
پیر کی شام تقریب سے خطاب کے بعد سوالات کے جوابات دیتے ہوئے ایرانی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ خطے میں داعش کی موجودگی تمام ہی ممالک کے لیے خطرہ ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ داعش کو عراق میں زمینی شکست تو ہوئی لیکن بد قسمتی سے اُس کے نظریے اور نیٹ ورک کو شکست نہیں دی جاسکی۔
جواد ظریف نے کہا کہ افغانستان میں داعش اور طالبان میں ایک مقابلہ نظر آتا ہے کہ کون زیادہ تشدد کرتا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ کے دورۂ پاکستان کے دوران ہونے والی ملاقاتوں میں افغانستان میں امن و استحکام کے لیے کابل حکومت سے تعاون کا معاملہ بھی زیرِ غور آیا۔
اس بارے میں سوالوں کے جواب دیتے ہوئے جواد ظریف نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پڑوسی ممالک افغانستان کی حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں تو تبدیلی ممکن ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم یقینی طور پر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کے بقول، "جتنا بھی ہمارا یا پاکستان کا اثر و رسوخ ہے، ہم مل کر کام کر سکتے ہیں۔۔۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ آسان کام ہے لیکن ہمیں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔"
پاکستان کے وزیرِ خارجہ خواجہ آصف نے بھی پیر کو جواد ظریف سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ امن و مصالحت کے عمل میں تعاون کے لیے جب بھی افغانستان کو ضرورت پڑے گی، کابل کے ہمسایہ ممالک موثر تعاون کے لیے تیار ہیں۔