چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڈے نے ماورائے عدالت قتل کے واقعات کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ انتقامی جذبے سے کیا گیا انصاف کبھی انصاف نہیں ہو سکتا۔ انصاف اگر انتقام کی شکل میں ہو تو اپنی ہیئت کھو دے گا۔
ان کا یہ بیان حیدرآباد میں ایک خاتون ڈاکٹر کے سے اجتماعی جنسی زیادتی اور قتل کے بعد پولیس کے ہاتھوں چاروں ملزمان کو ایک مبینہ مقابلے میں ہلاک کیے جانے کے بعد اس پر اٹھ رہے سوالات کے تناظر میں کافی اہم ہو جاتا ہے۔
اگرچہ عوامی طور پر اس انکاونٹر کی حمایت کی جا رہی ہے لیکن انسانی حقوق کے کارکن اور متعدد سیاست دان اسے ماورائے عدالت قتل سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اس واقعہ کے ساتھ ہی بھارت میں یہ بحث تیز ہو گئی ہے کہ کیا نظام انصاف پر سے عوام کا اعتماد ختم ہو گیا ہے اور کیا اب لوگ اس قسم کے ”عوامی انصاف“ کے حامی بن گئے ہیں۔
جسٹس بوبڈے نے جودھپور ہائی کورٹ کی نئی عمارت کی افتتاحی تقریب میں بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ انصاف کبھی عجلت میں کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ انصاف کو کبھی انتقام کی شکل اختیار نہیں کرنی چاہیے۔
تاہم انھوں نے اس کا اعتراف کیا کہ ملک کے نظام انصاف میں کچھ خامیاں ہیں جن کو دور کیے جانے کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بعض حالیہ واقعات نے ایک بار پھر پرانی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مجرمانہ معاملات کو نمٹانے میں لگنے والے وقت کے سلسلے میں نظام انصاف کو اپنے نظریے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ انصاف فوری طور پر ہونا چاہیے۔
ادھر تلنگانہ انکاونٹر معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔ دو وکلا نے ایک اپیل دائر کر کے کہا ہے کہ پولیس اہل کاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے اور اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی جائے۔
اس سے قبل تلنگانہ ہائی کورٹ نے بھی اس معاملے پر از خود نوٹس لیا ہے اور 6 دسمبر کی شب میں اس پر سماعت ہوئی۔ اس کے بعد ہائی کورٹ نے تمام پانچوں ملزموں کی لاش کو 9 دسمبر تک محفوظ رکھنے کا حکم دیا۔ ہائی کورٹ نے پوسٹ مارٹم کی ویڈیو بھی طلب کی ہے۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پیر کی صبح کو اس معاملے پر پھر سماعت کریں گے۔
اسی درمیان اترپردیش کے اناو کی زیادتی کا شکار 23 سالہ خاتون کی نئی دہلی کے ایک اسپتال میں موت ہو گئی۔ اسے 5 دسمبر کی صبح کو مبینہ ملزموں نے اس وقت جلا دیا تھا جب وہ ریپ کے کیس کی سماعت میں شرکت کے لیے رائے بریلی جا رہی تھی۔
اسے 90 فیصد جلی حالت میں پہلے رائے بریلی، پھر لکھنؤ اور پھر دہلی کے اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ اس نے جمعہ کی شب میں آخری سانس لی۔
کیس کے پانچوں ملزموں کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔
اناو کی خاتون کی موت کے بعد اس کے والد نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ یا تو ایک ہفتے کے اندر ان پانچوں کو سزائے موت دی جائے یا پھر حیدرآباد کی مانند ان کا بھی انکاونٹر کر دیا جائے۔
خاتون کی موت کے بعد اناو میں حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ اترپردیش حکومت کے دو وزرا ہفتے کو دن میں اناو گئے جہاں لوگوں نے ان کے خلاف احتجاج کیا۔
سیاست دانوں کی جانب سے متاثرہ خاندان کے لوگوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو اس واقعہ کے خلاف لکھنؤ میں دھرنے پر بیٹھ گئے ہیں جب کہ ایک اور سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی نے ریاستی گورنر سے ملاقات کر کے قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔