رسائی کے لنکس

بھارت: ​سپریم کورٹ کا کشمیر میں بچوں کی مبینہ گرفتاریوں کی تحقیقات کا حکم


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بچوں کی مبینہ گرفتاری کے الزامات سامنے آنے پر بھارتی سپریم کورٹ نے ان واقعات کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

جمّوں و کشمیر ہائی کورٹ کی بچوں سے متعلق کمیٹی ’جووینائل جسٹس کمیٹی‘ کو بھارتی سپریم کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ وہ بچوں کی مبینہ گرفتاری کے الزامات کی تحقیقات کرے۔

بھارتی سپریم کورٹ میں بچوں کی گرفتاری سے متعلق درخواست بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن اِناکشی گانگولی نے دائر کی تھی۔

اِناکشی گانگولی کا دعویٰ ہے کہ جمّوں و کشمیر میں پانچ اگست سے شروع ہونے والے کریک ڈاؤن میں بچوں کو بھی بڑی تعداد میں گرفتار کیا گیا ہے۔

درخواست میں بتایا گیا تھا کہ کشمیر میں زیر حراست بعض بچوں کی عمر صرف 10 سال ہے جب کہ کچھ بچوں کی اموات بھی ہوئی ہیں۔

اِناکشی گانگولی نے اس پٹیشن کے ذریعے اس معاملے میں عدالتی مداخلت کی درخواست کی تھی۔

انہوں نے عدالت سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ حکومت کو کشمیر میں گرفتار ہونے والے بچوں کی تعداد بتانے کی ہدایت کرے، جبکہ یہ بھی معلوم کیا جائے کہ کتنے بچے ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔

اس درخواست پر سماعت کرتے ہوئے بھارت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے جمّوں و کشمیر ہائی کورٹ کی جووینائل جسٹس کمیٹی کو مذکورہ الزامات کی تحقیقات کا حکم دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ان الزامات پر فی الحال کوئی رائے نہیں دیں گے۔ البتہ، اِناکشی گانگولی اور شانتا سنہا نے اہم ایشوز اٹھائے ہیں اور بچوں کی حراست کے الزامات لگائے ہیں۔

عدالت میں بھارتی حکومت کی نمائندگی کرنے والے تشار مہتا نے بچوں کی حراست کا ذکر کیے جانے پر اعتراض کیا۔ لیکن، عدالت نے ان کا اعتراض مسترد کر دیا۔

دہلی میں مقیم سرینگر کے ایک سینئر تجزیہ کار شیخ منظور احمد نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے اقدام پر کہا ہے کہ تحقیقات سے معلوم ہو جائے گا کہ کتنے بچوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔

شیخ منظور احمد کے مطابق، کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے سے ایک روز قبل ہی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، جبکہ بعض رپورٹس کے مطابق، کم از کم چار ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، جن میں بچے بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گرفتار ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں کوئی واضح صورتِ حال سامنے نہیں آ رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات ہوں گی تو کم از کم حکومت کو یہ بتانا پڑے گا کہ اس نے کتنے لوگوں کو گرفتار کیا جبکہ ان میں سے بچے کتنے ہیں۔

واضح رہے کہ اس معاملے پر بھارتی سپریم کورٹ میں گزشتہ سماعت کے دوران یہ بھی کہا گیا تھا کہ جمّوں و کشمیر ہائی کورٹ تک رسائی مشکل ہو رہی ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے جمّوں و کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو گرفتاریوں کے معاملے پر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ خود کشمیر جائیں گے۔

جمعے کو ہونے والی سماعت میں بھارتی چیف جسٹس نے کہا کہ کشمیر ہائی کورٹ سے رپورٹ موصول ہو گئی ہے جو کہ درخواست دہندہ کے دعوے کی تصدیق نہیں کرتی۔ لیکن، چونکہ ہمارے پاس متضاد رپورٹیں ہیں اس لیے تحقیقات کا حکم دیا جا رہا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG