بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور علاقائی نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ ریاست کے ایک قانون پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت پانچ اگست سے نظر بند ہیں۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 1978 سے پی ایس اے کا قانون موجود ہے جس کے تحت کسی بھی شخص کو مقدمہ چلائے بغیر دو سال تک زیرِ حراست رکھا جا سکتا ہے۔
لیکن اس طرح کی نظر بندی کو ایک عام عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور ایک سرکاری کمیٹی اس طرح کے معاملات کا وقفے وقفے سے جائزہ لیتی ہے۔
یہ قانون آج سے 40 برس قبل اس وقت متعارف کرایا گیا تھا جب فاروق عبداللہ کے والد شیخ محمّد عبداللہ ریاست کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔
اُس وقت کہا گیا تھا کہ ریاست کے جنگلات سے لکڑی کی غیر قانونی کٹائی اور اسمگلنگ کو ختم کرنے کے لیے اس طرح کے سخت گیر قانون کا موجود ہونا ناگزیر ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے قانون کا مختلف ریاستی حکومتوں نے سیاسی مخالفین کے خلاف بھی بے دریغ استعمال کیا۔ اسے استعمال کرنے والوں میں خود فاروق عبداللہ کی حکومت بھی شامل تھی۔
رواں سال جون میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں پی ایس اے کو ایسا قانون قرار دیا تھا جو ان کے بقول کشمیر میں انسدادِ جرم کے عدالتی نظام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے احتسابی نظام، شفافیت اور انسانی حقوق کو نظر انداز کرتا ہے۔
سرینگر کے سرکاری ذرائع کے مطابق 81 سالہ فاروق عبداللہ کو پی ایس اے کے تحت باضابطہ طور پر قید کرنے کا فیصلہ اتوار کی رات کو کیا گیا۔
فاروق عبداللہ 5 اگست سے سرینگر کے گپکار روڑ پر واقع اپنے گھر میں نظر بند تھے۔ اسی روز بھارتی حکومت نے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کو ختم کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی مقامی پولیس نے مختلف سیاسی جماعتوں کے 300 سے زائد رہنماؤں اور سرگرم کارکنوں کو حراست میں لیا تھا۔ جن میں سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں۔
حراست میں لیے گئے متعدد سیاسی لیڈروں اور کارکنان کو اب باضابطہ طور پر پی ایس اے اور دوسرے قوانین کے تحت نظربند کر کے بھارت کی مختلف ریاستوں کی جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
پولیس نے کشمیر میں چار ہزار کے قریب افراد کو بھی امن و امان میں رخنہ ڈالنے کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔ حکام کے مطابق ان میں سے بیشتر کو اب رہا کیا جا چکا ہے۔
ریاست کے تین بار وزیرِ اعلیٰ رہنے والے فاروق عبداللہ کو فی الحال اُن کی رہائش گاہ میں ہی نظربند رکھا گیا ہے اور ان کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دیا گیا ہے۔
فاروق عبداللہ کی رہائش گاہ تک جانے والی سڑک بھی دونوں طرف سے خاردار تاریں لگا کر بند کر دی گئی ہے۔
فاروق عبداللہ کی نظر بندی کے خلاف بھارت کی سپریم کورٹ میں تامل ناڈو ریاست کی ایک سیاسی جماعت کے ایم ڈی ایم کے لیڈر وائیکو کی جانب سے ایک درخواست بھی دائر کی گئی تھی۔
رِٹ پٹیشن میں فاروق عبداللہ کی نظربندی کو ختم کر کے اُنہیں ایک تقریب میں شرکت کرنے کی اجازت دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
خیال یہ کیا جا رہا ہے کہ انہیں اسی درخواست کے پیشِ نظر پی ایس اے کے تحت قید کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ فاروق عبداللہ نے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے فیصلے کو غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف ایک منظم قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کیا تھا۔
دوسری جانب بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پیر کو مسلسل 43 ویں روز بھی کاروباری سرگرمیاں معطل رہیں اور سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب رہی۔
اشیائے خورونوش کی خریداری اور دیگر اہم ضروریات کے لیے گزشتہ چند روز سے وادی کے مخصوص علاقوں میں چند دکانیں صرف صبح کے اوقات میں تین گھنٹوں کے لیے کھولی جاتی ہیں۔
وادی میں ریل خدمات بھی بدستور بند ہیں۔ جب کہ اسکولوں میں طلبأ کی حاضری بھی نہایت کم ہے۔