جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کیے جانے کے بعد بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں چوتھے روز بھی کرفیو نافذ ہے جب کہ حکام نے 500 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
وادی میں انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سروسز جمعرات کو بھی بند رہیں اور بیشتر بڑی سڑکوں سے ٹریفک غائب ہے۔
خبر رساں ادارے ''اے ایف پی' کے مطابق، بھارتی کشمیر کے صدر مقام سری نگر کی بیشتر مرکزی شاہراہوں پر سیکورٹی اہل کاروں نے ہر چند سو میٹر کے بعد ناکے لگائے ہوئے ہیں۔
وادی میں تعلیمی ادارے، بازار اور ذرائع نقل و حرکت بند ہیں اور مقامی لوگوں کو صرف اشد ضرورت کے تحت ہی گھروں سے نکلنے کی اجازت ہے۔
'اے ایف پی' کے مطابق، بھارت کی سیکورٹی فورسز نے کشمیر میں گزشتہ رات چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران مزید 500 افراد کو حراست میں لیا ہے، جن میں مقامی سیاسی رہنما، سماجی کارکن، یونیورسٹیوں کے پروفیسر اور علیحدگی پسند شامل ہیں۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق، ان افراد کو سری نگر، بارہ مولہ اور دیگر علاقوں سے حراست میں لیا گیا ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق کشمیر کے برعکس جموں میں صورتِ حال نسبتاً پر امن ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کا کہنا ہے کہ کشمیر میں پولیس اور نیم فوجی دستوں کے ہزاروں اہل کار تعینات ہیں۔
دو پولیس اہل کاروں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’رائٹرز‘ کو بتایا ہے کہ وادی میں اب بھی کہیں کہیں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
ایک پولیس اہل کار کا کہنا تھا کہ منگل کی رات سے اب تک سری نگر میں 30 سے زائد مقامات پر علیحدگی پسندوں نے پتھراؤ کیا ہے۔ سیکورٹی اہل کاروں کی جانب سے چھروں والی بندوقوں کے فائر سے کم از کم 13 مظاہرین زخمی ہوئے ہیں جنہیں سری نگر کے مرکزی اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
’اے ایف پی‘ کے مطابق وادی میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ مظاہرہ کرنے والے ایک نوجوان کو سیکورٹی اہل کاروں نے پکڑنے کی کوشش کی تو اس نے دریا میں چھلانگ لگا دی اور ڈوب کر ہلاک ہو گیا۔
ایک سیکورٹی افسر نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا ہے کہ کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام پر کشمیر کے لوگوں میں غصہ اور اشتعال بڑھ رہا ہے اور یہ غصہ جلد پرتشدد واقعات میں تبدیل ہو جائے گا۔ لیکن افسر کے بقول، یہ کب ہو گا، اس کا انہیں علم نہیں۔
مقامی رہنماؤں اور حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارتی کشمیر سے جیسے ہی کرفیو اور پابندیاں اٹھائی جائیں گی، تو وادی میں احتجاج اور پر تشدد واقعات کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عید الاضحیٰ پر بھارتی کشمیر سے کرفیو ہٹائے جانے کا امکان ہے۔
’رائٹرز‘ کے مطابق حالیہ کشیدگی کے دوران کشمیر کے 300 سیاسی اور علیحدگی پسند رہنماؤں کو بھارتی سیکورٹی فورسز نے حراست یا حفاظتی تحویل میں لیا ہے۔
البتہ، بھارتی اخبار ’انڈیا میل ٹوڈے‘ کے مطابق کشمیر کے تقریباً 400 سے زائد سیاسی و علیحدگی پسند رہنماؤں کو ان کے گھروں اور گیسٹ ہاؤسز میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔
مقامی پولیس افسران کے مطابق علیحدگی پسندوں کے خلاف یہ گزشتہ کئی برسوں کا سب سے بڑا کریک ڈاؤن ہے۔
نظر بند رہنماؤں میں بھارتی کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے کئی سابق ارکان اور سابق ریاستی وزرا بھی شامل ہیں۔ کشمیر کے دو سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ بھی زیرِ حراست ہیں۔
علیحدگی پسند رہنما میر واعظ عمر فاروق کو بھی سیکورٹی اہل کاروں نے منگل کو گرفتار کیا تھا جس کے بعد سے وہ اپنے گھر پر نظر بند ہیں۔
’انڈیا ٹوڈے‘ کے مطابق بھارت کی حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس کے مرکزی رہنما اور راجیہ سبھا میں قائدِ حزبِ اختلاف غلام نبی آزاد نے جمعرات کو سری نگر کا دورہ کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، حکام نے انہیں سری نگر کے ایئرپورٹ سے ہی نئی دہلی واپس بھیج دیا۔
سری نگر کے ایک رہائشی شاہ نواز حسین نے ’اے ایف پی‘ سے گفتگو میں کہا ہے کہ انہوں نے اپنے بُرے خوابوں میں بھی نہیں سوچا تھا کہ بھارت ان کے ساتھ کبھی ایسا کرے گا۔
شاہ نواز کا کہنا تھا کہ بھارت کے اس اقدام کے بعد وہ بھارت کی جمہوریت سے اپنی ہر اُمید اور اعتماد کھو چکے ہیں اور بھارتیوں کے لیے نفرت محسوس کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ نئی دہلی کی جانب سے بھارتی کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد بھارت اور پاکستان کے تعلقات بھی ایک بار پھر کشیدہ ہو گئے ہیں۔
پاکستان نے گزشتہ روز بھارت سے سفارتی تعلقات محدود کرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔