آئینِ ہند کی دفعہ 35 اے کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی عرضیوں پر سماعت اب اگلے سال جنوری کے دوسرے ہفتے میں ہوگی۔ عدالتِ عظمیٰ نے جمعے کو سماعت مؤخر کرنے کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں عنقریب ہونے والے پنچایتی اور بلدیاتی انتخابات کے پیشِ نظر کیا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ میں ان عرضیوں پر جمعے کو شنوائی ہونے والی تھی۔ لیکن اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال اور ایڈشنل سالیسٹر جنرل تُوشار مہتا نے جو عدالت میں بالترتیب وفاقی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے پیش ہوئے. چیف جسٹس دیپک مسرا کی قیادت میں قائم سہ رکنی بیچ کو مطلع کیا کہ چونکہ ریاست میں بلدیاتی انتخابات ستمبر اور دسمبر کے درمیان آٹھ مراحل میں کرائے جا رہے ہیں اس لئے سماعت کو ملتوی کیا جائے۔
ریاستی اور وفاقی حکومتوں نے سپریم کورٹ میں یہ استدلال پیش کیا کہ نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں دفعہ 35 اے سے متعلق کشیدگی پائی جاتی ہے اور اس مرحلے پر اسے منسوخ کرانے کی عرضیوں پر شنوائی ریاست میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کرے گی اور یہ صورتِحال ان انتخابات کے انعقاد پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
دفعہ 35 اے کے تحت نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں زمینیں اور دوسری غیر منقولہ جائداد خریدنے، سرکاری نوکریاں اور وضائف حاصل کرنے، ریاستی اسمبلی کے لئے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے پشتنی باشندوں کو حاصل ہے۔ نیز اس آئینی شِق کے تحت جموں و کشمیر کے پشتنی باشندوں کا انتخاب کرنے اور ان کے لئے خصوصی حقوق اور استحقاق کا تعین کرنے کا اختیار ریاستی قانون ساز ادارے کو حاصل ہے۔
دفعہ 35 اے بھارتی آئین ہی کی دفعہ370 کی ایک ذیلی دفعہ ہے جسے 1954 میں ایک صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔ دفعہ 370 کے تحت ریاست کو ہند یونین میں خصوصی آئینی پوزیشن حاصل ہے
کشمیری سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں کی یہ یکساں رائے ہے کی آئینِ ہند میں متنازعہ فیہہ ریاست کو حاصل خصوصی پوزیشن کو ختم کرانے کی کوششوں کا مقصد مسلم اکشریتی علاقے میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لئے راستہ ہموار کرنا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ میں زیرِ سماعت درخواستوں میں دفعہ 35 اے کو آئین سے متصادم قرار دیا گیا ہے۔
ان میں سے ایک درخواست ایک غیر سرکاری تنظیم – 'وی، دی سٹیزنز' نے2014 ء میں دائر کی تھی۔ اس تنظیم کو مبینہ طور پر قدامت پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سوئیم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی پشت پناہی حاصل ہے۔
دفعہ 35 اے کو منسوخ کرانے کی کوششوں کے خلاف نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں جمعے کو لگاتار دوسرے دن بھی ایک عام ہڑتال کی گئی جس سے کاروبارِ زندگی مفلوج رہا۔ دفعہ 35 اے کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری رہا جبکہ مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں نے گرمائی صدر مقام سرینگر کے حساس علاقوں میں دوسرے دن کرفیو جیسی پابندیاں عائد کیں جس کے نتیجے میں شہر کی تاریخی جامع مسجد میں جمعے کی نماز ادا نہیں کی جاسکی۔ تاہم، ریاست کے جموں خطے کی چناب وادی میں سپریم کورٹ کی طرف سے سماعت مؤخر کرنے کے اعلان کے بعد مقامی تنظیموں نے لوگوں سے اپنی کاروباری سرگرمیاں بحال کرنے کے لئے کہا۔
بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے دفعہ 35 پر سماعت ملتوی کرنے کے فیصلے پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے سرکردہ سیاسی اور مذہبی لیڈر میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ "ہم ریاستی عوام کی مثالی استقامت اور بد اندیش اور انتہائی نا مساعد حالات میں ابھرنے کی قوت کی داد دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی شناخت کے خلاف سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے۔"
میر واعظ نے مزید کہا "ریاست کے طول و عرض میں 5 اور 6 اگست کو اور اب 30 اور 31 اگست کو فقید المثال ہڑتال کی گئی جس سے حکومت اور سپریم کورٹ تک یہ پیغام پہنچ گیا کہ ریاست کےعوام اپنی مخصوص شاخت کے ساتھ کسی کو کھلواڑ نہیں کرنے دیں گے"۔
سماعت مؤخر کرنے کے عدالت کے فیصلے پر ریاست میں ملا جلا ردِ عمل ہوا ہے۔ عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ اور ریاستی اسمبلی کے آزاد ممبر انجینئر رشید نے عدالت کے فیصلے کو مایوس کن قرار دیدیا۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی عوام کو توقع تھی کہ سپریم کورٹ دفعہ 35 اےکے خلاف دائر کی گئی تمام عرضیوں کو خارج کردے گا اور اگر وہ ایسا کرتا تو یہ ایک صحیح فیصلہ ہوتا۔ انہوں نے نئی دہلی پر الزام لگایا کہ وہ دفعہ 35 اے کو کشمیر کے اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لئے استعمال کر رہی ہے اور کہا کہ سپریم کورٹ میں اس کے خلاف دائر عرضیوں پر سماعت کو ملتوی کرانے سے یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ"کشمیریوں کو دفعہ 35 اے میں الجھانا انہیں آہستہ آہستہ زہر کھلا کر مار ڈالنے کے مترادف ہے۔ تاہم، کشمیریوں کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنی آخری سانس تک اس دفعہ کا دفاع کرتے رہیں۔"
انجینئر رشید نے کہا ہے کہ "نئی دہلی کے ان حربوں کے باوجود کشمیری عوام مسئلہ کشمیر کو فراموش کریں گے اور نہ اسے اس کے تاریخی پس منظر میں حل کرانے کے مطالبے سے دستبردار ہونگے"۔
ادھر بھارت نواز علاقائی جماعت، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے کہا ہے کہ وہ لوگوں کے اُس عزم و ہمت کی داد دیتی ہے ’’جس کا انہوں نے اپنی شناخت اور آئینی پوزیشن کا دفاع کرنے کے لئے مظاہرہ کیا‘‘۔