بھارت کی سپریم کورٹ میں آئینِ ہند کی دفعہ 35 اے کو ختم کرنے کے لیے دائر درخواست کی اگلی سماعت 6 اگست کو ہوگی جس سے قبل بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں صورتِ حال کشیدہ ہے۔
بھارت کے آئین کی دفعہ 35 اے کے تحت ریاستی قانون سازوں کو جموں و کشمیر کے پشتنی باشندوں کا انتخاب کرنے اور ان کے لیے خصوصی حقوق اور استحقاق کا تعین کرنے کا اختیار کو حاصل ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دفعہ 35 اے منسوخ کی جاتی ہے تو اس سے ریاست میں 1927ء سے نافذ وہ قانون متاثر ہوگا جس کے تحت صرف اس کے پشتنی باشندے ہی ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کی خرید و فروخت کر سکتے ہیں اور سرکاری ملازمتیں حاصل کرسکتے ہیں۔
دفعہ 35 اے کو ختم کرنے کے لیے بھارتی سپریم کورٹ میں عرضی ایک غیر سرکاری تنظیم 'وی، دی سٹیزنز' نے 2014ء میں دائر کی تھی جسے مبینہ طور پر قدامت پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سوئیم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی پشت پناہی حاصل ہے۔
کشمیر کے مختلف حلقے یہ خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ عدالت اس آئینی ضمانت کو منسوخ کر سکتی ہے۔
عدالت میں آئینِ ھند کی دفعہ 370 کے خلاف بھی ایک عرض داشت زیرِ سماعت ہے۔ اس دفعہ کے تحت ریاست کشمیر کو بھارت میں خصوصی آئینی حیثیت حاصل ہے۔
کشمیری جماعتوں کا، جن میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتیں بھی شامل ہیں، استدلال ہے کہ دفعہ 35 اے کو منسوخ کرانے کے مطالبے کے پیچھے مسلم اکثریتی ریاست میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی سوچ کار فرما ہے۔
ان کا الزام ہے کہ بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اس آئینی شق کے خلاف مہم چلانے والوں کی پشت پناہی اور اعانت کر رہی ہے۔
استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے خبر دار کیا ہے کہ اگر بھارتی سپریم کورٹ نے ان کے بقول کشمیری عوام کے مفادات کے خلاف فیصلہ دیا تو ریاست میں ایک ہمہ گیر مزاحمت شروع کی جائے گی۔
اتحاد نے عرضی کی سماعت کے موقع پر اتوار 5 اگست سے ریاست میں دو روزہ ہڑتال کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔
مزاحمتی قیادت نے بھارت پر اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں فلسطین جیسے حالات پیدا کرنے کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ آئینی دفعات کے ساتھ دانستہ کھلواڑ یہاں غیر مسلموں کو بسا کر ریاست کے مسلم اکثریتی تشخص کو بدلنے کے لیے کیا جارہا ہے۔
نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی 27 تاجر انجمنوں نے بھی 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' کی طرف سے دی گئی ہڑتال کی اپیل کی نہ صرف تائید کی ہے بلکہ یہ اعلان بھی کیا ہے دفعہ 35 اے کے ساتھ ممکنہ کھلواڑ کے خلاف منگل 31 جولائی ہی سے احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سول سوسائٹی گروپس اور کئی بھارت نواز سیاسی جماعتوں نے بھی، جن میں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی شامل ہیں، نئی دہلی کو خبردار کیا ہے کہ دفعہ 35 اے کے ساتھ کھلواڑ ریاست میں حالات کو مزید خراب کرنے کا مؤجب بن سکتا ہے۔
بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کانگریس اور مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی نے بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ہر ایسی کوشش کا توڑ کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنا ہو۔
حکمران بی جے پی اس طرح کے الزامات کی تردید کرتی ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ ریاست کے بھارت میں مکمل انضمام کے حق میں ہے۔
اس کا اور ہم خیال سیاسی جماعتوں اور گروپس کا استدلال ہے کہ دفعہ 35 اے کی بقا کا دار و مدار سپریم کورٹ کے فیصلے اور ملک کے عوام کی مجموعی خواہش پر ہے۔
بی جے پی کے ریاستی جنرل سیکریٹری اشوک کول نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سب کے لیے قابلِ قبول ہونا چاہیے۔
بی جے پی کا موقف ہے کہ دفعہ 35 اے اُن بنیادی حقوق کے خلاف ہے جن کا آئینِ ہند شہریوں کو یقین دہانی کراتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سرکردہ وکیل اور ماہرِ قانون ظفر احمد شاہ نے بتایا کہ اگر دفعہ 35 اے ختم کی جاتی ہے تو ریاست میں 1927ء سے نافذ پشتنی رہائشیوں کا منفرد قانون کمزور بلکہ ختم ہوجائے گا اور اس طرح غیر ریاستی باشندے بھی یہاں منقولہ کے ساتھ ساتھ غیر منقولہ جائیداد خرید سکتے ہیں اور اس کے علاوہ ان کے لیے ریاست کے کوٹے پر ملازمتوں اور تعلیمی وظائف وغیرہ کا حصول بھی آسان ہو جائے گا۔