خیبر پختونخوا کے جنوبی شہرکوہاٹ سے 2012 میں گرفتار کئے جانے والے بھارتی شہری حامد نہال انصاری کی قید مکمل ہونے پر ان کو رہا اور انڈین حکام کے حوالے کرنے کی تیاری آخری مراحل میں ہے۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے پیر کو ایک ٹویٹ میں لکھا کہ "بھارتی جاسوس حامد نہال انصاری جو غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوا اور ریاست مخالف جرائم اور دستاویزات کی جعل سازی میں ملوث تھا، اسے سزا مکمل ہونے کے بعد رہا اور بھارت کے حوالے کیا جا رہا ہے۔
حامد انصاری ممبئی سے افغانستان اور پھر نومبر 2012 میں غیر قانونی طور پر کابل کے راستے خیبرپختونخوا کے جنوبی شہر کوہاٹ آئے تھے جہاں ان کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے ایک ہوٹل سے حراست میں لیا تھا۔
بتایا جاتاہے کہ حامد انصاری کے سوشل میڈیا کے ذریعے کوہاٹ کی ایک خاتون کے ساتھ رابطہ ہوا تھا اور اُسی خاتون کے دعوت پر وہ پاکستان آئے تھے۔
گرفتاری کے بعد حامد انصاری کے بارے میں کافی عرصے تک کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا تاہم لاہور ہی کی ایک خاتون صحافی زینت شہزادی نے ممبئی میں حامد انصاری کے والدہ کے ساتھ رابطہ کیا اور اس کے بعد عدالت میں انصاری کی جبری گمشدگی کا مقدمہ دائر کیا۔ جس کے بعد اگست 2015 میں زینت شہزادی گھر سے دفتر جاتے ہوئے اچانک لاپتہ ہو گئی۔ اکتوبر 2017 میں زینت شہزادی کو افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقے سے بازیاب کروایا گیا۔ لیکن زینت اور اس کے خاندان نے اس بارے میں میڈیا سے کوئی بات نہیں کی۔
حامد انصاری کو باقاعدہ طور پر ایک فوجی عدالت کے سامنے فروری 2016 میں پیش کیا گیا اور عدالت نے ان کو جعلسازی کے الزام میں تین سال قید کی سزاء سنائی۔ سزاء کی تکمیل سے قبل پشاور کے سینئر وکیل قاضی محمد انور نے گزشتہ جولائی میں پشاور ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں عدالت کے ذریعے حکومت سے استدعا کی گئی تھی کہ سزا کی تکمیل یعنی 16 دسمبر 2018 تک ان کی سفری دستاویزات مکمل کی جائیں۔
قاضی انور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جیل حکام سے وزارت داخلہ نے رابطہ قائم کیا ہے اور امید ہے کہ منگل کے صبح تک حامد انصاری کو رہائی مل جائے گی۔
نومبر کے اواخر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کرتارپور گزرگاہ کے سنگِ بنیاد کے موقع پر ہندوستان سے پاکستان آنے والے صحافیوں نے بھی عمران خان سے حامد انصاری کی جلد از جلدرہائی کی اپیل کی تھی۔
حامد انصاری نے مینجمنٹ سانسز مین ماسٹرز کیا ہے اور افغانستان آنے سے قبل ان کو ممبی کے ایک کالج میں لیکچررکے طور پر تعینات کیا گیا تھا۔ ان کی والدہ پیشے کے لحاظ سے پروفیسر، والد بنکر اور بھائی ڈاکٹر ہیں۔