ایسے میں جب پاکستان سمیت کئی ایک ترقی پذیر ممالک اور نوزائیدہ جمہوریتوں میں انتخابی عمل عام طور پر شک و شبہات اور دھاندلی کے الزامات سے پراگندہ ہوتا ہے، بھارت میں انتخابی عمل وسیع تر حلقوں کے نزدیک شفاف خیال کیا جاتا ہے۔
یہ بات ایسے میں خاص طور پر اہم ہو جاتی ہے جب بھارت میں سات مرحلوں کے انتخابات حکومت وقت کے ہوتے ہوئے خود مختار الیکشن کمشن کراتا ہے؛ اور پھر یہ انتخابات دنیا کا طویل ترین انتخابی عمل بھی قرار پاتے ہیں۔ 2019 میں بھی لوک سبھا یعنی ایوان زیریں کی 543 نشستوں پر انتخابات 11 اپریل سے شروع ہو کر 19 مئی کو مطلب تقریباً 40 دن میں مکمل ہوں گے۔ ووٹوں کی گنتی کا عمل 23 مئی سے شروع ہو گا۔
پہلے دن کے پولنگ کے تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد آنے والے نتائج بھی کسی طرح کی مداخلت کے الزامات اور شک و شہبات سے بالا کیوں ہوتے ہیں؟ ترقی پذیر ملکوں اور جمہوریتوں میں عام طور پر نہ صرف سیاسی جماعتیں اور ان کے طاقتور امیدوار انتخابی عمل کی خرابیوں کے قصوروار بتائے جاتے ہیں بلکہ ریاستی اداروں کی مداخلت اور جانبداری بھی شہہ سرخیوں کا حصہ بنتی ہے۔
وائس آف امریکہ نے بھارت کے سترھویں چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی اور تجزیہ کاروں ڈاکٹر منیش کمار اور پاکستان سے سینئر صحافی رائو خالد سے گفتگو پر مبنی رپورٹ تیار کی ہے۔
انڈین الیکشن کمشن کتنا خود مختار ہے؟
ایس وائی قریشی بھارت کے سابق چیف الیکشن کمشنر ہیں۔ 30 جولائی 2010 میں اس عہدے پر فائز ہوئے۔ اس سے قبل الیکشن کمشنر بھی رہے اور حکومت کے متعدد اداروں میں خدمات انجام دیں۔ سیکریٹری ہیلتھ رہے، ڈائریکٹر جنرل ایڈز کنٹرول پروگرام آرگنائزیشن رہے۔ ’یونیورسٹیز ٹاک ایڈز‘ نامی مہم کی سربراہی کی۔ مطلب چیف الیکشن کمشنر بننے سے پہلے وسیع تر انتظامی تجربہ رکھتے تھے۔
انہوں نے جمہوریت، انتخابات، ایچ آئی وی ایڈز اور خاندانی منصوبہ بندی کے موضوع پر متعدد مضامین اور کتابیں بھی تحریر کیں۔ جن میں ان کی کتاب ’’ دی میکنگ آف دی گریٹ انڈین الیکشن‘‘ بھی شامل ہے۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں ایس وائی قریشی کہتے ہیں کہ بھارت کے آئین نے الیکشن کمشن کو غیر جانبدارانہ اور خود مختار بنا دیا ہے۔ سیاسی یا ادارہ جاتی مداخلت کی گنجائش نہیں رہی۔ کمشن نے یہ بھی یقینی بنا دیا ہے کہ اگر الیکشن کمشن کی اپنی مشینری کا جھکاو کسی جانب ہو تو اس کو انتخابات سے پہلے تبدیل کر سکے۔
’’انتخابات سے پہلے سیاسی جماعتوں سے پوچھا جاتا ہے کہ ان کے تحفظات کیا ہیں۔ اگر وہ کہیں کہ انہیں کسی اہلکار یا عہدیدار سے جانبداری کا خدشہ ہے تو اس کے خلاف تحقیقات کی جاتی ہیں اور جھکاو ثابت ہونے پر اس کو عہدے سے ہٹا دیا دیا جاتا ہے‘'۔
چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کیسے ہوتا ہے؟
ایس وائی قریشی بتاتے ہیں کہ یہ تقرری حکومت وقت کرتی ہے۔ تاہم ایک بار کسی کو اس عہدے پر فائز کر دیا جائے تو اس کو ہٹایا نہیں جا سکتا
بقول اُن کے، ’’یہ تو میں مانتا ہوں کہ تقرری میں نقص ضرور موجود ہے۔ چیف الیشکشن کمشنر کا تقرر صرف حکومت کر دیتی ہے، جس کو چاہے لگا دیتی ہے۔ اور اس کے لیے حزب اختلاف سے مشورہ ضروری نہیں۔ حالانکہ یہ مشورہ ہونا اچھی بات ہے اور ہم تو سالہا سال سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس مشاورت کو ضروری بنایا جائے تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں کسی بھی قسم کا شبہہ نہ رہے۔ عام طور پر حکومت سابق سول سرونٹس کو یہ عہدہ دیتی ہے۔۔ لیکن چونکہ حکومت چیف الیکشن کمشنر بنانے کے بعد ایک طرف ہو جاتی ہے تو اس کے اثر انداز ہونے کا امکان نہیں ہوتا‘‘۔
ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کیسے کرایا جاتا ہے؟
بھارت کے سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کہتے ہیں کہ ضابطہ اخلاق پر سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہوتا ہے اور پھر اس پر عملدرآمد کو الیکشن کمشن یقینی بناتا ہے۔ اس مقصد کے لیے امیدواروں کی مہم پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے کہ وہ مقررہ حد سے زیادہ خرچ نہ کر سکیں۔ رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر مہم نہ چلا سکیں۔
ڈاکٹر منیش کمار، بھارت سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ الیکشن کمشن کو دیگر کئی ادارے مدد فراہم کرتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’ہمارے انکم ٹیکس اور ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کو ان کے اپنے علاقوں سے دور دوسرے علاقوں میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں وہ امیدواروں کی مہم کا جائزہ لیتا اور رپورٹ بنا کر بھیجتا ہے۔‘‘
تاہم، ڈاکٹر منیش کہتے ہیں کہ امیدواروں کی جانب سے اب بھی روپوں اور شراب کے بدلے ووٹ خریدنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سابق چیف الیکشن کمشنر وائی ایس قریشی کہتے ہیں کہ ضابطہ اخلاق سے ہٹنا امیدواروں کے لیے مشکل ہوتا ہے۔
’’آج کل تو ہر کوئی کیمرے کی نظر میں ہوتا ہے۔ اور کوئی نہ بھی دیکھ سکتے تو مخالف امیدوار ایسی کسی خلاف ورزی کی وڈیوز بھجوا دیتے ہیں۔‘‘
فوج کو نہ سراہنا انتخابی مہم کے ضابطہ اخلاق کا حصہ کیوں؟
2019 کے انتخابات سے قبل پاکستان اور بھارت کی آپس میں کشیدگی اور ایک دوسرے کے خلاف فضائیہ کو استعمال کرنے جیسے واقعات پر بھارت کے انتخابات پرگہرا اثر دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن، یہ خبریں سامنے آئیں کہ الیکشن کمشن نے سیاسی جماعتوں بالخصوص حکمران جماعتوں پر پابندی عائد کی کہ وہ اپنی فو ج کے کارناموں کو انتخابی مہم کا حصہ نہیں بنا سکتے۔
سابق چیف الیکشن کمشنر کے مطابق یہ اصول پہلے سے، 2013 سے چلا آ رہا ہے کہ فوج کی کارکردگی کو سیاسی مقصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ لیکن آج کل چونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی چل رہی ہے، جب یہ نقطہ سامنے آیا تو خبریں بن گئیں۔
الیکٹرانک مشینں کس قدر قابل استعمال اور قابل بھروسہ ہیں؟
ڈاکٹر منیش کمار کہتے ہیں کہ الیکٹرانک مشینوں کے استعمال کے بعد ٹمپرنگ مشکل ہو گئی ہے۔
’’ان مشینوں سے پہلے اسی طرح کے مسائل تھے جو ترقی پذیر ملکوں اور جنوبی ایشائی ملکوں میں نظر آتے ہیں۔ طاقتور امید وار پولنگ سٹیشنوں اور عملے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے تھے‘‘۔
ڈاکٹر منیش کے مطابق، اب جب ووٹ کا عمل مکمل ہو جاتا تو تو الیکٹرانک مشین کو امیدواروں کے ایجنٹوں کی موجودگی میں سیل کر دیا جاتا ہے اور جس دن گنتی کا عمل شروع ہوتا ہے وہ سیل سب کے سامنے کھولی جاتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک ان پڑھ شخص بھی بآسانی الیکٹرانگ ووٹنگ مشین استعمال کر سکتا ہے اور بیلٹ باکس پر اسے جہاں مہر لگانا ہوتی ہے وہاں وہ انگوٹھا لگا دیتا ہے۔ اور اس بار تو ڈاکٹر منیش کے بقول،''الیکٹرانک بیلٹ پر امیدوار کی تصویر بھی شامل کی جا رہی ہے''۔
ایس وائی قریشی کہتے ہیں کہ الیکٹرانک مشینوں کو بہت سادہ رکھا گیا ہے۔ نظام کی وجہ سے گنتی جلد مکمل ہو جاتی ہے۔
دیگر ملک بھارت کے انتخابی عمل سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
رائو خالد پاکستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔ ایک اردو اخبار کے ایڈیٹر اور ایک ٹی وی ٹاک شو کا بطور تبصرہ نگار حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ بھارت کے انتخابی نظام سے پاکستان کو بھی سیکھنے کے لیے بہت کچھ مل سکتا ہے۔
’’ پاکستان میں بھی الیکٹرانک ووٹنگ ہونی چاہیے جیسے بھارت میں ہوتی ہے۔ اداروں کو بھی غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ لیکن، ہم غیرسیاسی اور غیر جمہوری اداروں کو تو تب انتخابات پر اثر انداز ہونے کا گلہ کریں جو سیاسی جماعتیں خود شفافیت چاہتی ہیں۔ ان کے بقول، پیپلزپارٹی کے دور میں برقی مشینوں کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی تجویز دی گئی مگر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ وہ کہتے ہیں یہ سیاسی جماعتیں خود چاہتی ہیں کہ وہ انتخابی عمل پر اثرانداز ہو سکیں۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انتخابات کرانے کے لیے چیف الیکشن کمشنر کا انتظامی تجربہ ضروری ہے۔ بھارت آج بھی کسی سول سرونٹ کو چیف الیکشن کمشنر بناتا ہے جبکہ پاکستان میں سابق جج کو یہ عہدہ دیا جاتا ہے۔ جج صاحب ایماندار تو ہو سکتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ وہ اچھے منتظم بھی ہوں۔
راو خالد اور ڈاکٹر منیش کمار بھارت میں انتخابات کو فول پروف بنانے کا سہرا انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے 1955 کے بیج سول آفیسر ٹی این سیشان (تریو نلائے نریانا آئر سیشان) کے سر باندھتے ہیں جنہوں نے ملک کے دسویں چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور انتخابی عمل کو نقائص سے پاک کر دیا۔ انہوں نے بڑے پیمانے پر اصلاحات کیں جس پر ان کو آج بھی یاد رکھا جاتا ہے۔
بھارت میں پولنگ کا پہلا مرحلہ 11 اپریل کو ہو گا، جبکہ اختتامی پولنگ 19 مئی کو ہوں گے اور نتائج 23 مئی کو۔ اس اعتبار سے بھارت میں انتخابات کو دنیا بھر میں سب سے طویل انتخابی عمل سمجھا جاتا ہے۔