رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی گرفتاریاں، مزید نفری تعینات


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پولیس نے استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں، بالخصوص جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد کو حراست میں لے لیا ہے۔

حکام کے مطابق گرفتاریاں جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب کی گئیں اور پولیس نے بیشتر افراد کو ان کے گھروں پر چھاپے مار کر گرفتار کیا۔

سرینگر پہنچنے والی اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ جن افراد کو پولیس نے گرفتار کیا ہے ان میں جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض، ترجمان زاہد علی اور کئی موجودہ اور سابق عہدیدار شامل ہیں۔

اس سے پہلے پولیس نے سرینگر میں قوم پرست جماعت 'جموں کشمیر لبریشن فرنٹ' کے چیئرمین محمد یاسین ملک کو بھی حراست میں لے لیا تھا۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق گرفتار کیے جانے والے علیحدگی پسند رہنماؤں کو وادئ کشمیر سے باہر کی جیلوں میں رکھا جائے گا۔

پولیس ذرائع کے مطابق استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے قائدین اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رہے گا اور آئندہ ایک دو روز میں مزید گرفتاریاں عمل میں لائی جائیں گی۔

یہ کریک ڈاؤن شورش زدہ ریاست کے جنوبی ضلع پُلوامہ میں ہونے والے ایک خود کُش حملے کے ایک ہفتے بعد شروع کیا گیا ہے۔

چودہ فروری کو ہونے والے حملے میں بھارت کی وفاقی پولیس فورس (سی آر پی ایف( کے 49 اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔

حملے کے چند روز بعد حکومت نے 18 علیحدگی پسند رہنماؤں کو فراہم کردہ سرکاری سکیورٹی واپس لی تھی۔

حکومت نے 150 سے زائد دوسرے سیاسی رہنماوءں اور سرگرم کارکنوں کی سکیورٹی بھی یہ کہہ کر یا تو واپس لے لی ہے یا اس میں تخفیف کردی ہے کہ یہ ریاست کے محدود مالی وسائل کا ضیاع ہے۔

تاہم بھارت کے وزیرِِ داخلہ راج ناتھ سنگھ نے پُلوامہ خود کش حملے کے فوراً بعد کیے جانے والے سرینگر کے اپنے دورے کے دوران کہا تھا کہ پولیس کی جانب سے اُن لوگوں کو دی جانے والی سکیورٹی پر از سرِ نو غور کیا جا رہا ہے جو اُن کے بقول پاکستان سے رقم حاصل کرتے ہیں اور جن کے پاکستانی خفیہ ادارے 'آئی ایس آئی' اور دہشت گردوں کے ساتھ روابط ہیں۔

لیکن جماعت اسلامی نے الزام لگایا ہے کہ اس کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا تعلق آئینِ ہند کی دفعہ 35 اے کو ختم کرانے کی کوششوں سے ہے۔

جماعت نے خبردار کیا ہے کہ 35 اے کے خلاف اقدام کشمیری عوام کے لیے ناقابلِ قبول ہے اور وہ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔

واضح رہے دفعہ 35 اے کے خلاف دائر کی گئی عرضیوں پر بھارتی سپریم کورٹ میں سماعت پیر کو متوقع ہے۔

دفعہ 35 اے کے تحت نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں زمینیں اور دوسری غیر منقولہ جائیداد خریدنے، سرکاری نوکریاں اور وظائف حاصل کرنے، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے آبائی باشندوں کو ہی حاصل ہے۔

نیز اس آئینی شِق کے تحت جموں و کشمیر کے آبائی باشندوں کا تعین کرنے اور ان کے لیے خصوصی حقوق اور استحقاق متعین کرنے کا اختیار ریاستی قانون سازی اسمبلی کو حاصل ہے۔

تاہم اس آئینی شق کر ختم کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں کئی درخواستیں زیرِ سماعت ہیں جن میں اسے بھارت کے آئین سے متصادم اور بعض حلقوں بالخصوص خواتین کے لیے متعصبانہ قرار دیا گیا ہے۔

ان میں سے ایک درخواست ایک غیر سرکاری تنظیم 'وی، دی سٹیزنز' نے 2014ء میں دائر کی تھی۔ اس تنظیم کو مبینہ طور پر قدامت پسند ہندو تنظیم 'راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ' (آر ایس ایس) کی پشت پناہی حاصل ہے۔

دریں اثنا بھارتی وزارتِ داخلہ نے ریاستی حکومت کو لکھے گئے ایک خط میں کہا ہے کہ وفاقی پولیس اور نیم فوجی دستوں کی مزید ایک سو کمپنیاں (دس ہزار سے زائد نفری) کشمیر میں تعینات کی جا رہی ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG