واشنگٹن —
بھارت کی سپریم کورٹ منگل سے ایک انتہائی اہم مقدمے کی سماعت شروع کر رہی ہے جس کے فیصلے پر ملک میں 'جینرک' ادویات کی تیزی سے پھیلتی ہوئی صنعت کے مستقبل کا دورومدار ہے۔
بھارتی میں 'جینرک' ادویات کی صنعت نے 1970ء کی دہائی میں اس وقت فروغ پانا شروع کیا تھا جب حکام نے غیر ملکی ادویات کے حقوق محفوظ کرنے سے انکار کردیا تھا۔
اس فیصلے کے نتیجے میں مقامی کمپنیوں کو ادویات سے متعلق تحقیق پر سرمایہ کاری کرنے کے بجائے برانڈڈ ادویات کی نقول تیار کرنے کا موقع مل گیا تھا جو مقامی مریضوں کو نسبتاً سستی پڑتی ہیں۔
بعد ازاں 2005ء میں بھارتی حکام نے ادویات کے جملہ حقوق محفوظ کرانے کی اجازت دیدی تھی لیکن اس کے لیے مقرر کردہ معیارات دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکل ہیں۔
بھارتی حکام کی جانب سے لیکومیا کے مرض میں استعمال ہونے والی دوا 'گلیوک' کو 'پیٹنٹ' کرنے سے انکار کے خلاف 2006ء میں معروف کثیر القومی دوا ساز کمپنی 'نووارٹس' نے عدالت سے رجوع کرلیا تھا۔
اس معاملے میں بھارتی حکام کا موقف تھا کہ مذکورہ دوا کا فارمولا نیا نہیں بلکہ ایک پرانی دوا کا تبدیل شدہ ورژن ہے جس کے باعث اسے بھارتی قانون کے تحت 'پیٹنٹ' نہیں کیا جاسکتا۔
سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والی 'نووارٹس' کے بھارت میں سربراہ رنجیت شاہانی کہتے ہیں کہ ان کے اس مقدمے کو بھارت میں حقوقِ دانش کے تحفظ کو درپیش چلینجز کی یاد دہانی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
متعلقہ حلقے اس مقدمے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کیوں کہ اس کا فیصلہ صرف ایک دوا ہی نہیں بلکہ 'جینرک' ادویات کی پوری صنعت کے مستقبل کا تعین کرے گا۔
'ڈاکٹرز ود آئوٹ بارڈرز'سمیت کئی بین الاقوامی اور مقامی تنظیموں کا موقف ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے 'نووارٹس' کا موقف تسلیم کیے جانے کی صورت میں ایڈز اور تپِ دق جیسی جان لیوا بیماریوں کے علاج کے لیے ضروری ادویات کے سستے نسخوں کی فراہمی مشکل ہوجائے گی۔
واضح رہے کہ 'جینرک' ادویات کی بدولت بھارت میں ایڈز کے مرض کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات 150 ڈالرز تک آگئے ہیں جو ایک دہائی قبل تک 10 ہزار ڈالرز ہوا کرتے تھے۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس اہم مقدمے کی سماعت کئی ہفتوں تک جاری رہے گی۔
بھارتی میں 'جینرک' ادویات کی صنعت نے 1970ء کی دہائی میں اس وقت فروغ پانا شروع کیا تھا جب حکام نے غیر ملکی ادویات کے حقوق محفوظ کرنے سے انکار کردیا تھا۔
اس فیصلے کے نتیجے میں مقامی کمپنیوں کو ادویات سے متعلق تحقیق پر سرمایہ کاری کرنے کے بجائے برانڈڈ ادویات کی نقول تیار کرنے کا موقع مل گیا تھا جو مقامی مریضوں کو نسبتاً سستی پڑتی ہیں۔
بعد ازاں 2005ء میں بھارتی حکام نے ادویات کے جملہ حقوق محفوظ کرانے کی اجازت دیدی تھی لیکن اس کے لیے مقرر کردہ معیارات دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکل ہیں۔
بھارتی حکام کی جانب سے لیکومیا کے مرض میں استعمال ہونے والی دوا 'گلیوک' کو 'پیٹنٹ' کرنے سے انکار کے خلاف 2006ء میں معروف کثیر القومی دوا ساز کمپنی 'نووارٹس' نے عدالت سے رجوع کرلیا تھا۔
اس معاملے میں بھارتی حکام کا موقف تھا کہ مذکورہ دوا کا فارمولا نیا نہیں بلکہ ایک پرانی دوا کا تبدیل شدہ ورژن ہے جس کے باعث اسے بھارتی قانون کے تحت 'پیٹنٹ' نہیں کیا جاسکتا۔
سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والی 'نووارٹس' کے بھارت میں سربراہ رنجیت شاہانی کہتے ہیں کہ ان کے اس مقدمے کو بھارت میں حقوقِ دانش کے تحفظ کو درپیش چلینجز کی یاد دہانی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
متعلقہ حلقے اس مقدمے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کیوں کہ اس کا فیصلہ صرف ایک دوا ہی نہیں بلکہ 'جینرک' ادویات کی پوری صنعت کے مستقبل کا تعین کرے گا۔
'ڈاکٹرز ود آئوٹ بارڈرز'سمیت کئی بین الاقوامی اور مقامی تنظیموں کا موقف ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے 'نووارٹس' کا موقف تسلیم کیے جانے کی صورت میں ایڈز اور تپِ دق جیسی جان لیوا بیماریوں کے علاج کے لیے ضروری ادویات کے سستے نسخوں کی فراہمی مشکل ہوجائے گی۔
واضح رہے کہ 'جینرک' ادویات کی بدولت بھارت میں ایڈز کے مرض کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات 150 ڈالرز تک آگئے ہیں جو ایک دہائی قبل تک 10 ہزار ڈالرز ہوا کرتے تھے۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس اہم مقدمے کی سماعت کئی ہفتوں تک جاری رہے گی۔