رسائی کے لنکس

بھارت کا منفرد ڈیری فارم جہاں صرف خواجہ سرا کام کرتے ہیں


بھارت میں خواجہ سراؤں نے ملک کا پہلا ڈیری فارم متعارف کرایا ہے۔ یہ ڈیری فارم 30 خواجہ سراؤں کے لیے انفرادی مکان، ایک گائے اور مشترکہ کاروبار شروع کرنے کا سبب بن گیا ہے۔

ڈیری فارم کو ٹرانس جینڈرز ملک پروڈیوسرز کوآپریٹیو سوسائٹی کا نام دیا گیا ہے۔ ڈیری فارم پچھلے ماہ سے جنوبی ریاست تامل ناڈو میں حکومتی تعاون سے کام کررہا ہے۔

ڈیری فارم کی نگران خاتون خواجہ سرا بھومیکا ہیں جوبرسوں پہلے اپنے والدین کے گھر سے فرار ہوگئی تھیں اور تب سے اب تک بھیک مانگ کر گزارا کرتی تھیں۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز کے مطابق بھومیکا نے فون پر انٹرویو کے دوران بتایا کہ وہ پچھلے پانچ برسوں سے مختلف ٹرینوں میں بھیک مانگا کرتی تھیں۔ اس دوران انہوں نے بہت مشکل وقت اور حالات کا سامنا کیا۔

بھومیکا کا کہنا ہے کہ لوگ انہیں عجیب و غریب نظروں سے دیکھا کرتے تھے جب کہ وہ پروقار زندگی گزارنا چاہتی تھیں۔

تامل ناڈو کے جنوب میں مدورائی شہر سے 100 کلو میٹر کے فاصلے پر مینتھی تھوپو نامی گاؤں میں قائم ڈیری فارم میں موجود 28 سالہ بھومیکا نے بتایا کہ ڈیری فارم کے باہر اب بھی ان سے پہلے جیسا ہی رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ لیکن ڈیری فارم میں رہتے ہوئے وہ نارمل اور باعزت زندگی گزار رہی ہیں۔ یہاں ہر چیز سے انہیں اپنے پن کا احساس ہوتا ہے۔

ڈیری فارم ڈیڑھ ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے جہاں ہرروز 180 لیٹر دودھ فروخت ہوتا ہے۔ فارم کا قیام مقامی عہدیدارسندیپ نندوری کے خیالات کی تعبیر ہے جو ریاست کے متعدد محکموں کو رہائش، ملازمت، تربیت اور نقد رقم کی مد میں ایک کروڑ 75 لاکھ روپے کے منصوبوں پر کام کرچکے ہیں۔

بھارت میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 20 لاکھ خواجہ سرا ہیں۔ اتنی بڑی آبادی کے لیے مکانات فراہم کرنا یا ان کی آمدنی بہتر بنانا انتہائی مشکل ہے یہی وجہ ہے کہ بیشتر خواجہ سرا بھیک مانگ کر گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔ آمدنی کی غرض سے وہ یا تو شادی بیاہ یا خوشی کے دیگر مواقع پر ناچ گا کر پیسہ کمانے پر مجبور ہیں یا وہ جسم فروشی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ تعلیم تک رسائی اور ملازمتوں کا حصول ان کے لیے نہایت مشکل ہے۔

سن 2014 میں سپریم کورٹ نے خواجہ سراؤں کو تیسری صنف کی حیثیت سے ایک نئی پہچان دی تھی۔ کچھ کمپنیوں نے انہیں ملازمتیں بھی فراہم کیں اور اس حوالے سے یونیسیف کی جاری کردہ پالیسیوں پر بھی عمل کیا، انہیں مقامی لوگوں کی جانب سے خیرات اور حکومت کی جانب سے ان کی مالی اعانت بھی کی گئی تاکہ وہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرسکیں۔

لیکن سندیپ نندوری کے پاس خواجہ سراؤں سے متعلق کچھ اور بھی عزائم تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ خواجہ سراؤں کو معاشرے میں بااختیار بنانا چاہتے ہیں اسی لیے انہیں ڈیری فارم کے قیام کا خیال آیا۔ خواجہ سراؤں کو معاشرے میں کاروبار کے ساتھ ساتھ سر چھپانے کے لیے چھت فراہم کرنے کی غرض سے ان کی رہائش گاہ کے قریب ہی ڈیری فارم کے لیے جگہ مختص کرائی گئی۔

نندوری نے معروف اور سرگرم خواجہ سرا گریس بانو کی حوصلہ افزائی کی جنہوں نے 6 سال تک مقامی عہد یداروں کے ساتھ لابنگ کی تاکہ خواتین خواجہ سراؤں کو گھر فراہم کیا جاسکے۔

بھارت کی بیشتر خواتین خواجہ سراؤں کے برعکس بانو نے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور اب چنئی میں ایک موبائل ایپ ڈویلپر کی حیثیت سے کام کرتی ہیں۔ وہ ٹرانس برادری کی رہنما ہیں۔

بانو کا کہنا ہے کہ رہائش ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اگر ہم مکان کرائے پر لیتے ہیں تو مالکان ہمارے ساتھ بدسلوکی سے کام لیتے ہیں۔ ہم کچھ کہیں تو مکان خالی کرنے کی دھمکی دے دیتے ہیں۔

ایک سال کے اندر اندر نندوری نے خواتین کے لیے گائے خریدنے کی غرض سے قرضوں کا انتظام کیا۔ سرکاری ایجنسیوں کو سائٹ پر گرین شیڈ بنانے پر رضامند کیا جب کہ ایک کمرے پر مشتمل مکانات بھی تعمیر کرائے گئے۔

بانو کا کہنا ہے کہ نندوری پہلے فرد ہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ باعزت سلوک کیا۔ انہوں نے ہماری ضروریات کو سمجھا اور انہیں پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

انہوں نے کہا اسی وجہ سے ہم نے اپنی رہائشی کالونی کا نام ان سے منسوب کر دیا ہے۔ ہم اسے سندیپ نگر کہتے ہیں۔

بھومیکا کا کہنا ہے کہ اس کاروبار نے انہیں عزت دی، ہمیں اس کاروبار کے مزید پھلنے پھولنے کی توقع ہے لہذا ہم اسے کبھی بند نہیں کرنا چاہیں گے۔

XS
SM
MD
LG