بھارت میں حزب اختلاف کی قیادت میں ہزاروں لوگوں نے ملک بھر میں حکومت کی جانب سے بڑی مالیت کے کرنسی نوٹ منسوخ کرنے کے متنازع اقدام کے خلاف مظاہرے کیے۔
حکومت مخالف جماعتوں نے حکومت کے ’ مالیاتی ایمرجینسی ‘کے اس شاذ ونادر اقدام پر نکتہ چینی کی جب کہ حکومت کا موقف ہے کہ اس سے بدعنوانی کا بڑے پیمانے پر قلع قمع ہوگا۔
یہ مظاہرے کول کتہ، نئی دہلی، ممبئی ، اور بنگلور جیسے ملک کے بڑے بڑے شہروں اور ان ریاستوں میں ہوئے جن پر حزب اختلاف کی حکومتیں ہیں، مثلاً مشرق میں مغربی بنگال اور جنوب میں کیرالا۔
حزب اختلاف کی مرکزی جماعت نے شاہراہوں پر کیے جانے والے ان مظاہروں کو یوم برہمی کا نام دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے 20 دنوں سے ملک بھر کے شہریوں میں حکومتی اقدام کے خلاف غصہ پایا جاتا ہے۔ کانگریس پارٹی کے ایک مرکزی راہنما غلام نبی آزاد کا کہنا تھا کہ اس ملک کے کسان، عورتیں اور بزرگ شہری غصے سے بھرے ہوئے ہیں۔
پارلیمنٹ کے ایوان میں حکومت مخالف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے حکومتی کارروائی کو آڑھے ہاتھوں لیا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں بدعنوانی اور رشوت ستانی کی روک تھام اور غیر قانونی سرمائے پر کنٹرول سے متعلق حکومت کی سوچ سے کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن انہوں نے اس پر قابو پانے کے لیے جو کارروائی کی ہے اس سے عام لوگوں میں بڑے پیمانے پر خوف و ہراس اور بے چینی پھیلی ہے۔
سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ نے حکومتی اقدام کو’ یاد گار بد انتظامی ‘قرار دیا ہے۔
آٹھ نومبر کو حکومت کے اعلان کے بعد ملک کی 86 فی صد کرنسی کی قدر صفر ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں بہت بڑے پیمانے پر نقد رقم کا بحران پیدا ہوگیا۔ پانچ سو اور ایک ہزار روپے کے کرنسی نوٹوں کی مالی حیثیت ختم ہو جانے سے عام لوگوں کی زندگیاں درہم برہم ہو گئیں اور کاروبار کے ان شعبوں میں جہاں زیادہ تر لین دین نقد رقوم پر ہوتا ہے روز مرہ کے معمولات ٹھپ ہو گئے۔
پیر کے روز پارلیمنٹ میں حکومتی اقدام کا دفاع کرتے ہوئے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ یہ اقدام کالے دھن کے خلاف جنگ ہے اور پورے ملک نے حکومت کے اس جذبے کو قبول کیا ہے۔