رسائی کے لنکس

بھارتی وزیر مواصلات کرپشن کے الزامات پر مستعفی


موبائل فون کمپنیوں کو سیکنڈ جنریشن وائرلس فون ٹیکنالوجی کے لائسنس دینے میں ہونے والی مبینہ طورپر بدعنوانی کی پاداش میں مرکزی وزیر مواصلات اے راجہ نے استعفی دے دیا ہے۔ لیکن حزب اختلاف اب بھی مطمئن نہیں ہے۔ اس نے پیر کے روز یعنی پارلیمانی اجلاس کے مسلسل چوتھے روز بھی زبردست ہنگامہ کیا جس کے سبب پہلے وقفہ سوالات کو اور اور پورے دن کے لیے ایوان کی کارروائی کو ملتوی کردینا پڑا۔

حزب اختلاف کے ارکان کا مطالبہ ہے کہ پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی سے اس اسکینڈل کی تحقیقات کرائی جائے اور ا س معاملے میں قصور وار دوسرے لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف وزیر کا استعفیٰ کافی نہیں ہے۔ ا

اے راجہ نے گذشتہ رات استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کا تعلق حکومت میں شامل ایک اہم حلیف جماعت بی ایم کے سے ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 2008ء میں دیے گئے ان لائسنسوں کے سبب حکومت کو ایک لاکھ 65 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔

مارکسی پارٹی کے رکن بھنداکارٹ اور دوسری جماعتوں کے ارکان نے بھی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے چھان بین کرنے اوروزیر مواصلات کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن حکومت نے اس مطالبے کو مسترد کردیا ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ پی چدم برم نے کہا ہے کہ کنٹرولر اینڈ ایڈیٹر جنرل سے اس کی تحقیقات کرائی جارہی ہے اور اگر ضرورت پڑی تو اسے پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سپرد کیا جاسکتا ہے جس کےچیئر مین بی جے پی رکن مرلی منوہر جوشی ہیں۔

وزیر مواصلات اے راجہ نے خود کو بے قصور قرار دیا ہے اور کہاہے کہ انہوں نے حکومت کو شرمندگی سے بچانے کے لیے استعفیٰ دیاہے۔

اس سے پہلے کارگل جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی بیواؤں اور خاندنوں کے لیے تعمیر شدہ آدرش سوسائٹی سے متعلق بدعنوانی میں مبینہ طورپر ملوث مہارشٹر کے وزیر اعلیٰ اشوک چوہان کو وزیر اعلی ٰکے عہدے سے اور کامن ویلتھ گیمز میں بدعنوانی کے سلسلے میں آرگنائزنگ کمیٹی کے چیئرمین سریش کلماڈی کو کانگریس پارٹی میں ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان اقدامات سے حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ بدعنوانی کو برداشت نہیں کرے گی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG