بھارت اور چین کے سربراہان کی حالیہ ملاقات کا نتیجہ ایک سمجھوتے کی صورت میں سامنے آیا جس کا مقصد متنازع اور غیر طے شدہ سرحدوں کے ساتھ ساتھ امن اور سکون بحال کرنا ہے۔ لیکن، اس سے بھارت کے لیے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔
اس ملاقات سے چند ماہ قبل ہمالیہ کے پہاڑوں میں خوفناک فوجی تعطل دیکھا گیا جس میں اِن بڑے ایشیائی ملکوں کے درمیان وسیع تر تنازع کا خدشہ تھا۔ اِسے غیر رسمی سربراہ اجلاس کا نام دیا گیا ہے، جو گذشتہ ہفتے چین کے شہر ووہان میں منعقد ہوا، جس کا مقصد کشیدہ تعلقات میں بہتری لانا تھا۔
تاہم، تجزیہ کاروں نے متنبہ کیا ہے کہ بھارت کو انتظار کرنا ہوگا تاکہ یہ پتا لگ سکے آیا چینی صدر شی جن پنگ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان پائی جانے والی خیرسگالی سرحدی تناؤ میں کمی کا باعث بنتی ہے نیا نہیں۔
بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ دونوں سربراہان نے ’’اپنی اپنی فوج کو حکمت عملی کا حامل ہدایت نامہ‘‘ جاری کیا ہے، تاکہ روابط کو مضبوط کیا جاسکے اور اعتماد بحال ہوسکے، جب کہ دونوں فریق نے اپنے اختلافات کو متانت اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا۔
جیا دیو رنادے نئی دہلی میں چین سے متعلق تجزیے اور حکمت عملی کے مرکز کے سربراہ ہیں۔ بقول اُن کے ’’حقیقت میں یہی اس تنازع کا محور ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ ’لائن آف ایکچوئل کنٹرول‘ کی قانون شکنی اور خلاف ورزیاں کم ہوتی ہیں یا نہیں۔ ہمیں انتظام کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا آیا ایسا ہوتا بھی ہے یا نہیں‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’اس ضمن میں چین اور بھارت کا ریکارڈ اچھا نہیں رہا‘‘۔
’’قانون شکنی‘‘ سے رنادے کی مراد سرحد پر محاذ آرائی ہے جو اُس وقت ہوئی جب دونوں فریق ایک دوسرے کو 3500 کلومیٹر غیر طے شدہ طویل سرحد والے علاقے میں گھس آنے کا الزام دیتے ہیں۔ یہ واقعات زیادہ تر چھوٹے پیمانے کے ہوتے ہیں جیسا کہ فوجیوں کے درمیان الفاظ کی جنگ چھڑنا۔ کبھی کبھار یہ شدید صورت بھی اختیار کر لیتی ہے۔
بھارت کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال اِن واقعات کی تعداد 426 تھی، جو اس سے پیشتر برس کے مقابلے میں زیادہ ہے، جب ان کا شمار 273 تھا۔ اسے سرحد پر چین کی فوج کی جانب سے اپنی برتری جتانے کی ایک کوشش قرار دیا جاتا ہے۔