بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعہ کے روز چین کے صوبہ ہوبیئی کے دارالحکومت ووہان میں چینی صدر شی جن پنگ سے غیر رسمی ملاقات کی اور باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا۔
وہ چین کے دو روزہ دورے پر جمعہ کی صبح بیجنگ پہنچے تھے۔
ووہان میں مودی کا شاندار استقبال کیا گیا۔ پچھلے سال ڈوکلام تنازعہ کے بعد دونوں ملکوں کے رشتوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے بعد مودی کا یہ چین کا پہلا دورہ ہے۔
مودی نے ملاقات کے وقت شی جن پنگ سے کہا کہ دنیا کی 40 فیصد آبادی کے مفاد میں بھارت اور چین کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر شی جن پنگ نے کہاکہ چین اور بھارت کو عالمی امن اور ترقی میں بھرپور تعاون دینا چاہیے۔
مودی نے چینی صدر کی بھرپور تعریف کی اور انہیں دوسرے غیر رسمی اجلاس میں شرکت کے لیے 2019 میں بھارت آنے کی دعوت دی۔
ایک سینئر تجزیہ کار پروین ساہنی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین ایک عالمی طاقت بن چکا ہے اور بھارت ابھی اوسط درجے کی قوت ہے۔ ڈوکلام میں جو کچھ ہوا یا اس سے پہلے سرحد پر جو بھی ہوا ہے وہاں چین کی فوجی اہلیت بہت زیادہ ثابت ہوئی ہے۔ اگر مودی حکومت کو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ دونوں میں طاقت کے لحاظ سے بہت فرق ہے تو پھر دونوں میں بہتر رشة قائم ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر بھارت یہ چاہتا ہے کہ پہلے سرحدی تنازعات کو آگے بڑھنے سے روکے اور اس کے بعد دوسری باتوں پر آئے، تو اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔
مودی اور شی کی اس غیر رسمی ملاقات کو ہارٹ ٹو ہارٹ یعنی دل سے دل کانفرنس کا نام دیا گیا ہے۔ اس موقع پر دونوں راہنماؤں میں 6ملاقاتیں ہوں گی لیکن نہ تو کوئی معاہدہ ہوگا اور نہ ہی کوئی مشترکہ بیان جاری کیا جائے گا۔