رسائی کے لنکس

نریندر مودی کا گجرات میں ٹوٹنے والے پل کا دورہ، 9 افراد گرفتار


گجرات میں معلق پل گرنے کے بعد کا ایک منظر
گجرات میں معلق پل گرنے کے بعد کا ایک منظر

نئی دہلی۔ بھارت کی مغربی ریاست گجرات کے موربی میں معلق پل ٹوٹنے اور ایک سو سے زائد افراد کی ہلاکت کے واقعے پر عالمی رہنماوں کی جانب سے اظہار تعزیت کا سلسلہ جاری ہے جب کہ اس معاملے میں 9 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

امریکی صدر جو بائڈن، نائب صدر کملا ہیرس اور وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے اس حادثے پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس مشکل وقت میں ہم بھارت اور وہاں کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کے مطابق ہمارے دل ان غمزدہ خاندانوں کے ساتھ ہیں جنھوں نے اس حادثے میں اپنے عزیزوں کو کھو دیا ہے۔

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن، چین کے صدر شی جن پنگ، سری لنکا کے صدر وکرم سنگھے، نیپال کے وزیر اعظم شیر بہادر دیوبا، سعودی عرب کی وزارت خارجہ اور پولینڈ کے وزیر اعظم نے بھی متاثرین کے ساتھ ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

خیال رہے کہ گجرات کے موربی میں دریائے مچھو پر بنے سوا سو سال پرانے اس معلق پل کو، جسے مرمت کے لیے چھ سات ماہ قبل بند کر دیا گیا تھا، 26 اکتوبر کو گجراتی سال کے پہلے دن عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ اتوار کے روز اس پر کافی رش ہو گیا جس کی وجہ سے وہ ٹوٹ کر گر گیا۔ اس حادثے میں ہلاکتوں کی تعداد 135 تک پہنچ گئی ہے۔

ہلاک شدگان میں زیادہ تر عورتیں اور بچے ہیں۔ راج کوٹ لوک سبھا حلقے سے بی جے پی کے رکن پارلیمان موہن کندریا کے مطابق ان کے 12 رشتے دار اس حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ وہ تمام لوگ ان کی بہن کے خاندان سے تھے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کو جائے حادثہ کا دورہ کیا اور صورت حال کا جائزہ لیا۔ انھوں نے اسپتال میں زخمیوں سے ملاقات کی۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس سے قبل پیر کی رات میں انھوں نے دہلی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی تھی اور حادثے سے متعلق تفصیلات معلوم کی تھیں۔

دریں اثنا گجرات پولیس نے گھڑی ساز کمپنی ’اوریوا گروپ‘ کے دو منیجرز سمیت 9 افراد کو غفلت برتنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ گھڑیاں، ای بائیک اور ڈیجیٹل کلکولیٹر بنانے والی کمپنی اوریوا گروپ کو پل کی دیکھ بھال کے لیے 15 سال کے لیے ٹھیکہ ملا تھا۔

راجکوٹ رینج کے انسپکٹر جنرل آف پولیس اشوک یادو کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں مذکورہ کمپنی کے دو ذمہ داروں کے علاوہ پل پر ٹکٹ فروخت کرنے والے دو اہلکار اور تین سیکورٹی گارڈز بھی شامل ہیں۔

رپورٹس کے مطابق اس کمپنی کے پاس اس شعبے میں کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ کمپنی نے ایک چھوٹی کمپنی سے اس سلسلے میں خدمات حاصل کی تھیں۔ گجرات کے بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ کمپنی کے برسراقتدار طبقے کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں جس کی وجہ سے اسے ٹھیکہ دیا گیا۔

اس پر بی جے پی کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن گجرات بی جے پی کے ایک ترجمان سنجیو پانچولی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے حادثے کے لیے ’اوریوا کمپنی‘ کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ انھوں نے اس کا اعتراف کیا کہ یہ کمپنی اس معاملے میں ناتجربہ کار ہے اور اسے ٹھیکہ نہیں دیا جانا چاہیے تھا۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے موربی کے سرکاری اسپتال کے دورے اور زخمیوں سے ملنے کے پروگرام سے کچھ ہی وقت قبل اسپتال میں رنگ و روغن کا کام کیا گیا۔ تین سو بستروں والا یہ اسپتال تین منزلہ ہے۔ اس میں سردست چھ زخمیوں کا علاج کیا جا رہا ہے جب کہ 56 کو ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔ پانچ زخمیوں کا علاج دوسرے اسپتال میں چل رہا ہے۔

کانگریس پارٹی نے ایک ٹوئٹ میں وزیر اعظم کے دورے سے قبل اسپتال میں رنگ و روغن کی کارروائی پر تنقید کی اور کہا ہے کہ اتنے لوگ ہلاک ہو گئے اور وہ لوگ ایونٹ میں مصروف ہیں۔ عام آدمی پارٹی اور دیگر پارٹیوں نے بھی اس کارروائی کی مذمت کی ہے۔

حزب اختلاف کے متعدد رہنماوں نے اس حادثے کی جانچ کے لیے کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔ جب کہ سینئر کانگریس رہنما دگ وجے سنگھ نے گجرات کے وزیر اعلیٰ سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔

عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال نے کہا کہ پل کے ٹوٹنے کی وجہ بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہے۔ ایک گھڑی ساز کمپنی کو جس کا پل بنانے کے معاملے میں کوئی تجربہ نہیں تھا، کنٹریکٹ کیوں دیا گیا۔

حزب اختلاف کے کچھ رہنما 2016 میں مغربی بنگال میں دیے گئے وزیر اعظم کے اس بیان کی یاد دلا رہے ہیں جس میں انھوں نے ایک پل ٹوٹنے سے 26 افراد کی ہلاکت کے بعد ایک انتخابی تقریر میں کہا تھا کہ ’یہ ایکٹ آف گاڈ نہیں بلکہ ایکٹ آف فراڈ‘ ہے۔ انھوں نے عوام کو یاد دلایا تھا کہ بھگوان نے اس حکومت کے خلاف لوگوں کو انتباہ کیا ہے۔ اس وقت وہاں اسمبلی انتخابات کے لیے مہم چلائی جا رہی تھی۔

دریں اثنا سپریم کورٹ میں ایک اپیل دائر کرکے اس معاملے کی تحقیقات ایک سبکدوش جج کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یو یو للت نے اس اپیل پر 14 نومبر کو سماعت کی تاریخ دی ہے۔

قانونی امور کی رپورٹنگ کرنے والی نیوز ویب سائٹ ’بار اینڈ بینچ‘ کے مطابق مفاد عامہ کی عذرداری داخل کرنے والے ایڈووکیٹ وشال تیواری نے کہا کہ یہ حادثہ حکومت و انتظامیہ کی غفلت اور ناکامی کا ثبوت ہے۔

بھارت: کشمیر میں کیبل کار کو حادثہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:40 0:00

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بد انتظامی، فرائض سے غفلت اور رکھ رکھاو میں کوتاہی کے سبب گزشتہ ایک دہائی کے دوران ایسے کئی حادثات پیش آئے ہیں جن میں بڑی تعداد میں لوگوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

سینئر تجزیہ کار اشوک وانکھیڈے کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ مذکورہ کمپنی نے پل کو کھولنے سے قبل فٹنس اور نو آبجکشن سرٹی فکیٹ نہیں لیا تھا۔ اگر ایسا ہے تو حکومت و انتظامیہ نے پل کو عوام کے لیے کھولنے کی اجازت کیسے دی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں 9 افراد کو تو گرفتار کیا گیا ہے لیکن مقامی میونسپلٹی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی جنھوں نے پل کھلنے کے بعد پانچ دنوں تک خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس حادثے کا اثر ریاستی اسمبلی کے انتخابات پر پڑے گا۔ ریاست میں دو دہائی سے زیادہ عرصے سے بی جے پی برسراقتدار ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق عوام کا بڑا طبقہ حکومت کے کاموں سے خوش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی پارٹی کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول ہو رہی ہے۔

خیال رہے کہ دسمبر میں گجرات اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ حکومت نے ریاست میں یکساں سول کوڈ کے نفاذکا اعلان کیا ہے جس کے بعد بی جے پی کے امکانات میں اضافہ ہوا تھا لیکن اب جب کہ یہ حادثہ ہو گیا تو اس سے بی جے پی کے امکانات پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔

تجزیہ کار صبا نقوی کے مطابق دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم کے دورے کے بعد حادثے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے یا نہیں۔ انھوں نے بعض دیگر تجزیہ کاروں کے اس خیال سے اتفاق کیا کہ اس کا اثر الیکشن پر پڑ سکتا ہے۔ لیکن کیا حزب اختلاف کے رہنما اس معاملے سے سیاسی فائدہ اٹھا سکیں گے؟ اس پر انھوں نے شبہے کا اظہار کیا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG