امریکی وزیر خارجہ مائیک پومیو نے جو اس وقت نئی دہلی کے دورے پر ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول سے ملاقات اور تبادلہ خیال کیا۔ بات چیت کے دوران باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے سمیت عالمی و علاقائی امور بھی زیر بحث آئے۔
جے شنکر اور پومپیو کے درمیان وسیع تر مذاکرات میں باہمی دلچسپی کے امور کے علاوہ انڈوپیسفک، ایران اور افغانستان جیسے عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ دونوں ملک کس طرح معاشی ترقی کر سکتے ہیں، اس پر بھی گفتگو ہوئی۔
مذاکرات کے بعد ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں ایس جے شنکر نے کہا کہ دونوں ملکوں نے دفاع، توانائی، تجارتی امور اور اس کے ساتھ ہی امریکہ میں بھارتی تارکین وطن، طلبا اور بھارتی تجارت جیسے عوامی مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
مائیک پومپیو نے یہ اعتراف کیا کہ تجارتی امور پر بھارت کے ساتھ امریکہ کے اختلافات ہیں۔ لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے ان اختلافات کی اہمیت گھٹانے کی کوشش کی کہ بڑے دوستوں میں اختلافات ہوتے ہی رہتے ہیں۔
دونوں وزرا نے باہمی اختلافات کا جائزہ لینے اور انھیں دور کرنے کی کوششیں کرنے پر اتفاق کیا۔
انھوں نے بھارت اور روس کے درمیان پانچ بلین ڈالر پر مشتمل S-400 دفاعی نظام کے سودے پر بھی باہمی اختلاف کا اعتراف کیا اور اسے دور کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
تاہم جے شنکر نے یہ واضح کیا کہ اس معاملے میں بھارت اپنے قومی مفادات کے تحت فیصلہ کرے گا۔
امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت یہ سودا منسوخ کر دے ورنہ اسے امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایس جے شنکر نے دہشت گردی سے متعلق امور پر امریکی حمایت کی ستائش کی۔
ایک سینئر تجزیہ کار قمر آغا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دوست ملکوں میں اختلافات بھی ہوتے ہیں لیکن وہ باہمی تعلقات کی راہ میں آڑے نہیں آتے۔
ان کے بقول کئی امور پر بھارت اور امریکہ کے خیالات یکساں نہیں ہیں لیکن دونوں ان اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ اگر امریکی پابندیوں کی وجہ سے بھارت کو ایرانی تیل کی سپلائی بند ہو جاتی ہے تو اس سے بھارت کو زبردست نقصان ہو گا۔
مائیک پومپیو منگل کی شب نئی دہلی پہنچے تھے۔
وزیر اعظم نریندر مودی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس ہفتے جاپان میں گروپ 20 کے سربراہ اجلاس کے موقع پر ملاقات کریں گے۔ توقع ہے کہ ان کے درمیان دہشت گردی اور افغانستان سمیت متعدد امور پر بات ہو گی۔