القاعدہ کے سربراہ، ایمن الظواہری کی جانب سے اس اعلان کے بعد کہ اُن کا اسلام پسند دہشت گرد گروپ برصغیر بھارت میں اپنی شاخ کھول رہا ہے، بھارتی انٹیلی جنس اداروں نے ملک بھر میں چوکنہ رہنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔
انٹرنیٹ پر جاری ہونے والے 55 منٹ کے ایک وڈیو پیغام میں، ظواہری نے کہا ہے کہ تنظیم گجرات، آصام اور کشمیر کی بھارتی ریاستوں کے علاوہ بنگلہ دیش اور میانمار میں ’بے انصافی اور ظلم کے شکار مسلمانوں کو بچانا چاہتی ہے‘۔
اِس خطرے کو زیر بحث لانے کے لیے، بھارت کے وزیر داخلہ، راجناتھ سنگھ نے سلامتی سے متعلق اہل کاروں سے ملاقات کی ہے۔
سکیورٹی سے متعلق تجزیہ کار القاعدہ کےاِس نئے اعلان کو اپنی گرتی ہوئی ساکھ بڑھانے کا ایک حربہ خیال کرتے ہیں، جب کہ یہ تنظیم ’دولت الاسلامیہ‘ کے جہادی گروپ کے سامنے آنے کے بعد اہمیت کھوتی جارہی ہے، جس نے شام اور عراق میں خصوصی اثر و رسوخ حاصل کر لیا ہے۔
یہ اعلان بھارت کے نئے وزیر اعظم، نریندرا مودی کے لیے ایک چیلنج کا درجہ رکھتا ہے، جنھیں پہلے ہی متعدد واقعات کے سلسلے میں خاموش رہنے پر نکتہ چینی کا سامنا ہے۔ جب وہ ریاستِ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، اُنھیں مسلمان مخالف خیال کیا جاتا تھا۔
وزیر اعظم مودی نے ظواہری کے اعلان پر کوئی بیان نہیں دیا۔ تاہم، حکمراں بھارتیا جنتا پارٹی کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ یہ ’سخت تشویش‘ کا معاملہ ہے۔
بھارت میں عالم اسلام کی تیسری بڑی برادری آباد ہے، جہاں 17 کروڑ 50لاکھ مسلمان ہیں، جو بھارت کی آبادی کا تقریباً 15 فی صد ہیں۔