پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے آذربائیجان کے یومِ آزادی کے موقع پر آذربائیجان کے صدر اور عوام کو مبارک باد دی ہے اور آذربائیجان کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے اتوار کو اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ناگورنو کاراباخ تنازع میں علاقائی سالمیت اور خود مختاری کا تحفظ کرنے پر وہ آذری فوج کو سلام پیش کرتے ہیں۔ پاکستان سلامتی کونسل کی قرارداوں کی روشنی میں ناگورنو کاراباخ کے حل کے لیے آذربائیجان کے ساتھ ہے۔
وزیرِ اعظم پاکستان کا یہ بیان آرمینیا کے وزیرِ اعظم کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے ناگورنو کاراباخ کی لڑائی میں پاکستانی فورسز کے شامل ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔
آرمینیا کے وزیرِ اعظم نے روسی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ تنازع ناگورنو کاراباخ میں پاکستان کی اسپیشل فورسز بھی آذری فوج کے ساتھ لڑائی میں شامل ہیں۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
یاد رہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا کی فورسز کے درمیان ناگورنو کاراباخ کے تنازع پر گزشتہ ماہ سے جھڑپیں جاری ہیں جن میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔
انٹرویو کے دوران آرمینیا کے وزیرِ اعظم سے پوچھا گیا تھا کہ پاکستانی فوج کے اس جنگ میں شریک ہونے سے متعلق ان کے پاس کیا ثبوت ہیں تو اُنہوں نے کہا تھا کہ بعض اطلاعات کے مطابق پاکستان کی اسپیشل فورسز مبینہ طور پر اس لڑائی میں شامل ہیں۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے بھی ہفتے کو اپنے ایک بیان میں آرمینیا کی طرف سے کیے جانے والے "غیر ذمہ دارانہ پراپیگنڈے" پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس دعوے کو مسترد کیا تھا۔ ترجمان نے کہا تھا کہ پاکستان برادر ملک آذربائیجان کی سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔
اس بارے میں دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ر) امجد شیعب کہتے ہیں کہ پاکستان کی پالیسی ہے کہ ملک سے باہر کسی بھی دوسرے ملک میں لڑائی کے لیے پاکستان اپنے فوجی دستے نہیں بھیج سکتا۔
لیکن ان کے بقول آذربائیجان نے پاکستان سے دفاعی ساز و سامان ضرور خریدا ہے جن میں راکٹ لانچر اور ملٹی بیرل راکٹ لانچر وغیرہ شامل ہیں۔
امجد شعیب کا کہنا ہے کہ یہ اسی طرح ہے جیسے پاکستان دیگر ممالک کو دفاعی ساز و سامان فراہم کرتا رہا ہے۔
ان کے بقول اگرچہ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کا ایک معاہدہ ہے جس کے تحت سعودی عرب میں پاکستانی فوجی جاتے ہیں۔ لیکن وہ سعودی عرب کے مقدس مقامات کی سیکیورٹی پر مامور ہیں۔ وہ سعودی عرب کے کسی دوسرے ملک کے ساتھ تنازع میں شریک نہیں ہیں۔
امجد شعیب کے بقول پاکستان آذربائیجان کی سفارتی حمایت کرتا ہے۔ لیکن فوجی دستے بھیجنے کی بات کسی طور پر درست نہیں ہے۔
امجد شعیب کا کہنا ہے کہ پاکستان کے کاروباری افراد کی ایک بڑی تعداد آذربائیجان میں موجود ہے اور وہاں پاکستانیوں کے لیے خیر سگالی کا جذبہ موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی قومی پالیسی ہے کہ پاکستان کسی دوسرے ملک کی جنگ میں شامل نہیں ہو گا۔ لیکن ان کے بقول پاکستان لگ بھگ 40 ممالک کے فوجی اہل کاروں کو تربیت فراہم کرتا آ رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان آذربائیجان کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی کے معاملات پر بھی تعاون کرتا رہا ہے۔
دوسری طرف آذربائیجان اور آرمینیا نے ناگورنو کاراباخ کے متنازع علاقے میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔ لیکن دونوں ملک ایک دوسرے پر جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کرتے ہوئے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔