رسائی کے لنکس

ٹرمپ کا عمران خان سے رابطہ؛ 'امریکہ ہر صورت امن معاہدے پر عمل درآمد چاہتا ہے'


تجزیہ کاروں کے مطابق جب بھی امریکہ اور پاکستان کے حکام کی بات ہو گی اس میں دیگر معاملات کے علاوہ افغانستان کا معاملہ ضروری زیر بحث آئے گا۔ (فائل فوٹو)
تجزیہ کاروں کے مطابق جب بھی امریکہ اور پاکستان کے حکام کی بات ہو گی اس میں دیگر معاملات کے علاوہ افغانستان کا معاملہ ضروری زیر بحث آئے گا۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوششوں کے بارے میں بدھ کو ٹیلی فون پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق دونوں رہنماؤں نے افغانستان میں قیام امن کے لیے ہونے والی امریکی کوششوں پر بھی تبادلہ کیا۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے وائٹ ہاؤس کے ایک اعلامیے کے حوالے سے بتایا ہے کہ بدھ ہی کو صدر ٹرمپ نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے بھی فون پر گفتگو کی جب کہ دونوں رہنماؤں نے طالبان کی طرف سے تشدد میں کمی کرنے کی اہمیت پر اتفاق کیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق دونوں رہنماؤں نے افغانستان میں قیدیوں کی رہائی کے لیے بات چیت جاری رہنے پر بھی اتفاق کیا۔

صدر ٹرمپ نے قطر اور پاکستان کی قیادت سے ایک ایسے وقت میں گفتگو کی ہے جب حال ہی میں امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے اسلام آباد کا مختصر دورہ کیا تھا جب کہ اس سے قبل انہوں نے دوحہ میں طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کی تھی۔

زلمے خلیل زاد کا پاکستانی حکام سے ملاقاتوں کا محور امریکہ طالبان امن معاہدے پر عمل درآمد میں حائل مشکلات کے بارے میں تبادلہ خیال کرنا تھا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق صدر ٹرمپ کی پاکستان کے وزیر اعظم اور قطر کے امیر سے بات چیت کا محور اگرچہ کرونا وائرس تھا لیکن وبا کے ساتھ جس دوسرے معاملے پر بات ہوئی وہ افغان امن عمل تھا جو بظاہر تعطل کا شکار ہے۔

'افغانستان کا معاملہ ضروری زیر بحث آئے گا'

افغان امور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ جب بھی امریکہ اور پاکستان کے حکام کی بات ہو گی اس میں دیگر معاملات کے علاوہ افغانستان کا معاملہ ضرور زیر بحث آئے گا۔

ان کے بقول امریکہ افغان مسئلے کے حل کا خواہاں ہے۔ اس کے لیے انہیں پاکستان کا تعاون حاصل ہے۔ دوسری طرف قطر کے ساتھ بھی وہ رابطے میں ہیں جہاں طالبان کا سیاسی دفتر موجود ہے۔

رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ امریکہ کو اس وقت کرونا وائرس کی وبا کے ساتھ ساتھ ایک معاشی چیلنج بھی درپیش ہے۔ امریکہ طالبان سے معاہدے پر پوری طرح عمل درآمد کے لیے کوشاں ہے۔

ان کے بقول صدر ٹرمپ کا عمران خان اور شیخ تمیم بن حمد الثانی سے رابطہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

رحیم اللہ یوسف زئی مزید کہتے ہیں کہ امریکہ کے لیے یہ باعث تشویش ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا عمل مکمل نہیں ہو سکا ہے جب کہ بین الاٖفغان مذاکرات کے لیے بھی کوئی تاریخ طے نہیں ہو سکی ہے۔

'افغان امن عمل میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے'

یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری کے آخر میں دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے کے تحت افغان حکومت اور طالبان میں قیدیوں کا تبادلہ ہوتا تھا۔ جس کے بعد بین الافغان مذاکرات شروع ہونے تھے لیکن تاحال ایسا نہیں ہو سکا ہے۔

نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اور افغانستان میں تعینات امریکی فورسز کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر نےحال ہی میں قطر کا دورہ کیا تھا۔ بعد ازاں وہ پاکستان بھی آئے تھے۔

رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول افغان امن عمل سے متعلق کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ امریکہ چاہتا ہے کہ افغان امن مذاکرات کی طرف جلد پیش رفت ہو۔ اس لیے اس معاملے پر صدر ٹرمپ نے پاکستان اور قطر کی قیادت سے بات کی ہے۔

'قطر اور پاکستان سے رابطہ طالبان سے مطالبات منوانے کے لیے کیا گیا'

انہوں نے کہا کہ امریکہ کی کوشش ہے کہ اگر افغان حکومت طالبان کے 1500 یا 2000 قیدی رہا کر دیتی ہے تو طالبان بین الافغان مذاکرات میں شامل ہو جائیں جب کہ طالبان اس پر تیار نہیں ہیں۔

ان کے بقول طالبان چاہتے ہیں کہ جب تک ان کے تمام قیدی رہا نہیں ہو جاتے وہ بین الافغان مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گے۔

رحیم اللہ یوسف زئی نے خیال ظاہر کیا کہ طالبان کے انکار کی وجہ سے امریکہ نے قطر اور پاکستان سے رابطہ کیا ہے تاکہ طالبان سے یہ مطالبہ منوایا جا سکے۔

'کرونا وائرس سے علاقائی تنازعات کی طرف توجہ کم ہوئی ہے'

وائس امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے عالمی سیاست اور علاقائی تنازعات کی طرف توجہ کم ہوئی ہے۔

ہما بقائی کا کہنا ہے کہ امریکہ اور طالبان میں معاہدے کے بعد بین الافغان مذاکرات کے مرحلے کا آغاز ہونا تھا لیکن قیدیوں کی رہائی میں سست روی اور تشدد میں اضافے کی وجہ سے اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان سے متعلق تمام اسٹیک ہولڈر بشمول امریکہ، قطر، پاکستان، افغان حکومت اور طالبان کوشاں ہیں کہ افغان عمل سے متعلق معاملات جلد حل ہوں۔

'پاکستان نے امن کے لیے کردار ادا کرنے سے انکار نہیں کیا'

ان کے بقول کرونا وائرس، قیدیوں رہائی میں تاخیر اور تشدد کی کارروائیوں نے معاملہ پیچیدہ بنا دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے کردار ادا کرنے سے انکار نہیں کیا۔ پاکستان طالبان کی قیادت پر اثر و رسوخ استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔

تجزیہ کاروں کے خیال میں افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار اہم ہے لیکن فروری میں دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کی راہ میں حال رکاوٹ کو دور کرنے کے بین الاقوامی بردار اور علاقائی ممالک کا تعاون بھی ضروری ہے۔

XS
SM
MD
LG