رسائی کے لنکس

عمران خان کا واشنگٹن میں کمیونٹی سے خطاب یا پی ٹی آئی کا جلسہ؟


کیپیٹل ون ایرینا کا داخلی دروازہ جہاں عمران خان اتوار کو کمیونٹی سے خطاب کریں گے۔
کیپیٹل ون ایرینا کا داخلی دروازہ جہاں عمران خان اتوار کو کمیونٹی سے خطاب کریں گے۔

پاکستانی وزیراعظم جب امریکہ کا سرکاری دورہ کرتے ہیں تو عمومی اور روایتی طور پر یہاں رہنے والی پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ بھی ان کی میٹنگ ہوتی ہے جس میں ان کی پارٹی کی امریکہ کی شاخ سے منسلک افراد، بزنس کمیونٹی اور با اثر شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے۔ ایسی تقریبات کا خرچ حکومت پاکستان ہی اٹھاتی ہے اور وزیر اعظم پاکستان، حاضرین کو اپنے دورے، پاکستان کے حالات اور اوورسیز پاکستانیوں کی پاکستان کے لیے خدمات کا ذکر کرتے ہیں۔

لیکن اس بار نئے پاکستان کے نعرے کے ساتھ منتخب ہونے والے وزیر اعظم عمران خان امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ہزاروں پاکستانیوں سے خطاب کر کے ایک نئی روایت ڈالنے کے خواہشمند ہیں اور اتوار اکیس جولائی کو اس تقریب کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ یہ پاکستان کے کسی بھی وزیر اعظم کے لیے پہلا موقع ہو گا کہ وہ امریکہ میں ہزاروں پاکستانیوں سے مخاطب ہو۔

وائس آف امریکہ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق عمران خان کو پاکستانی نژاد امریکیوں کی جانب سے تجویز بھیجی گئی تھی کہ وہ امریکہ آ کر پاکستانیوں سے ملاقات کریں۔ جس پر انہوں نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ غیر ملکی دورے کر کے پاکستانی حکومت کوئی فضول خرچی نہیں کرنا چاہتی۔ جس کے بعد انہیں یقین دہانی کروائی گئی کہ اس پر اٹھنے والے اخراجات حکومت پاکستان کو نہیں اٹھانے ہوں گے، اور وہ مان گئے۔ اب اس سلسلے میں "سب کچھ ان کی خواہش کے مطابق ہو رہا ہے ان کی نگرانی میں ہے اور جیسا وہ چاہتے ہیں اسی قسم کے انتظامات کیے جا رہے ہیں" یہ کہنا ہے سید جاوید انور کا جو عمران خان کے اس خطاب کا مکمل خرچ اٹھا رہے ہیں۔

سید جاوید انور امریکی نائب صدر مائک پینس کے ساتھ
سید جاوید انور امریکی نائب صدر مائک پینس کے ساتھ

سید جاوید انور ٹیکساس میں رہنے والے پاکستانی نژاد امریکیوں میں ایک مخیر اور بااثر شخصیت ہیں۔ مڈلینڈ ٹیکساس میں انہیں آئل ٹائکون کہا جاتا ہے۔ جاوید انور امریکہ میں گزشتہ سال ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کے امیدواروں کو فنڈنگ دے کر پاکستانی امریکن کے طور پر بھی ابھرے ہیں۔ اب وہ پاکستانی امریکی کمیونٹی میں عمران خان کے عوامی خطاب کو مکمل طور پر فنڈ کر رہے ہیں۔

سید جاوید انور کے مطابق عمران خان کو پاکستانی امریکیوں سے خطاب کرنے کا آئڈیا پسند آیا تھا۔ اور پھر انہوں نے احکامات جاری کیے، اور اس کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، مشیر برائے سمندر پار پاکستانی زلفی بخاری اور نعیم الحق شامل ہیں" جاوید انور کے مطابق عمران خان روزانہ اس کمیٹی میں شامل افراد سے بات کرتے ہیں۔"

امریکہ میں سیاسی جلسہ منعقد کرنا پاکستان میں ایسا کرنے سے بالکل مختلف ہے۔ واشنگٹن میں قائم انڈس نامی تھنک ٹینک سے منسلک عنبر جمیل کہتی ہیں کہ "امریکی معاشرہ انتہائی سٹرکچرڈ اور بااصول ہے جہاں احتساب اور شفافیت کا مظبوط نظام رائج ہے اس لیے اس قسم کی تقریب کے انعقاد سے پہلے ضروری ہے کہ اکاونٹس، ریگولیٹری اور قانونی ضابطے مکمل کیے جائیں اس کے لیے بہت سے مراحل ہیں جن سے گزر کر ہم اس ایونٹ کو منعقد کروا سکیں گے اس کے لیے پراجیکٹ مینیجمنٹ کے تمام اصول لاگو ہوں گے جن پر ہمیں عمل کرنا ہو گا۔"

انڈس ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جس کا مشن پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو مظبوط بنانا ہے۔ جاوید انور کہتے ہیں کہ اس قسم کے تاریخی ایونٹ کو امریکہ میں ممکن اور کامیاب بنانے کے لیے ضروری تھا کہ کسی تنظیم سے رابطہ کیا جاتا اور انڈس اس سلسلے میں بہترین انتخاب تھا۔ جس کے بعد سید جاوید انور اور انڈس نے مل کر ایسی جگہ منتخب کی جہاں کئی ہزار لوگ جمع کیے جا سکیں۔

عمران خان کی اس عوامی تقریب کے لیے کیپیٹل ون ایرینا کو چنا گیا ہے۔ انڈور یا چار دیواری میں قائم کیا گیا یہ ایرینا یا اسٹیڈیم کھیلوں کے مقابلوں اور کانسرٹس وغیرہ کے لیے مشہور ہے۔ واشنگٹن شہر کے بیچوں بیچ چائنا ٹاون میٹرو اسٹیشن کے عین اوپر واقع اس اسٹیڈیم میں ایک وقت میں بیس ہزار افراد سما سکتے ہیں۔ مائک ٹائیسن کی زندگی کا آخری باکسنگ مقابلہ یہیں منعقد ہوا تھا۔ لیڈی گاگا بیونسے جسٹن ٹمبر لیک جینیفر لوپیز اور کئی دیگر فنکار یہاں پرفارم کر چکے ہیں۔ دلائی لامہ اور مشیل اوبامہ جیسے عالمی رہنما اس ایرینا میں عوام سے خطاب کر چکے ہیں۔ یہ ایک نجی جگہ ہے جہاں کرائے کی خطیر رقم کے عوض چند بنیادی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

سید جاوید انور کے مطابق اس جگہ کا کرایہ "دو لاکھ ڈالر سے کچھ ہی کم ہے اور اس ایونٹ کی تمام لاگت تقریباً پانچ لاکھ ڈالر ہے جس میں لائٹنگ، ساونڈ سسٹم، بڑی ایل ای ڈی اسکرینز، پروڈکشن، انشورنس اور سب سے بڑی بات سیکورٹی شامل ہے۔"

عمران خان کو پسند کرنے والے پاکستانی امریکن حلقوں میں اتوار کی تقریب میں ان کی سیکیورٹی کے حوالے سے خاصی تشویش پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ڈی ایم وی (ڈی سی میریلینڈ ورجینیا) نے عمران خان کے استقبال کی حکمت عملی میں تبدیلی بھی کی ہے اتوار کو اگرچہ عمران خان کو سیکرٹ سروس کی جانب سے سیکیورٹی دی جائے گی لیکن عنبر جمیل کہتی ہیں کہ وہ کافی نہیں ہے۔" ریگولیشن کے مطابق ایرینا میں سیکورٹی کی متعدد تہیں ہیں جن کے لیے عملہ بڑی تعداد میں درکار ہے ساتھ ہی اتوار کے روز موسم انتہائی گرم رہے گا اس لیے لوگوں کو تیزی سے اندر لانا ہو گا، لاجسٹکس میں یہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔"​

جنید بشیر، پی ٹی آئی امریکہ
جنید بشیر، پی ٹی آئی امریکہ

پی ٹی آئی ڈی ایم وی کے رکن جنید بشیر اس تقریب کے لیے مقرر کیے گئے تقریباً ڈھائی سو رضاکاروں اور تقریب والے دن کے دیگر انتظامات کے نگران ہیں۔ امریکہ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی نژاد امریکی کسی پاکستانی سیاسی رہنما کی تقریر سننے جمع ہو رہے ہیں۔ دارالحکومت واشنگٹن میں کم سے کم بیس ہزار لوگوں کو جمع کرنے کا بیڑا پی ٹی آئی ڈی ایم وی نے اٹھایا ہے۔

ایک ہفتہ قبل پی ٹی آئی ڈی ایم وی نے امریکی پاکستانیوں کو جلسے میں دعوت دینے کے لیے ایک واٹس ایپ گروپ تشکیل دیا۔ جنید بشیر کے مطابق ایک طرف جہاں گروپ پر گفتگو میں لوگ پارکنگ کے مسائل اور جلسہ گاہ کے اطراف اور راستے دریافت کر رہے ہیں وہیں کچھ افراد کا خیال ہے کہ عمران خان کو ان سے ذاتی طور پر بھی ملنا چاہیے تاکہ وہ انہیں مستقبل کے پاکستان کے لیے دوررس تجاویز دے سکیں۔ جنید بشیر کہتے ہیں کہ لوگوں کا مطالبہ جائز ہے اور انہیں منع نہیں کیا جا رہا "اس واٹس ایپ گروپ میں شاہ محمود قریشی اور زلفی بخاری سمیت اس انتظامی کمیٹی کے تمام ارکان شامل ہیں جو اسلام آباد میں بنی ہے۔لوگ اپنی باتیں اس گروپ میں کر رہے ہیں اور یہ آواز ان تک پہنچ رہی ہے ۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔"

تقریب میں شرکت کے لیے آن لائن رجسٹریشن کا عمل شروع کیا گیا ہے اور منتظمین کے مطابق بیس ہزار افراد کو جمع کرنے کا ہدف پورا کرنے میں اب چند ہزار ہی باقی بچے ہیں۔ ایرینا میں بیس ہزار لوگوں کی گنجائش ہے اور جنید بشیر کو امید ہے کہ "ان کے علاوہ پانچ ہزار لوگ ایرینا کے باہر موجود ہوں گے۔"

جہاں واشنگٹن میٹرو ایریا کی پاکستانی کمیونٹی میں عمران خان کے استقبال اور قیام پر جوش و خروش پایا جاتا ہے وہیں کئی امریکی پاکستانی عمران خان کی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے بھی سرگرم ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہفتے کے روز سے پیر تک واشنگٹن میں پاکستانی امریکن مسییحی، بلوچ، ایم کیو ایم اور پشتون تحفظ تحریک سے منسلک افراد بھی شامل ہیں جو وائٹ ہاوس، کیپیٹل ہل اور دیگر ایسی جگہوں پر عین اس وقت پاکستانی حکومت کے خلاف مظاہرے کرنا چاہتے ہیں جب عمران خان ان مقامات پر امریکی حکام سے ملاقاتوں میں مصروف ہوں گے۔

امریکہ میں اس قسم کے مظاہروں کے لیے بھی باقاعدہ اجازت درکار ہوتی ہے۔ مظاہرے کے منتظمین نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ وہ اس سلسلے میں انتظار میں تھے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے وزیر اعظم کی امریکہ آمد کا شیڈول جاری کیا جائے تاکہ اس کے مطابق یہ مظاہرے پلان ہو سکیں لیکن شیڈول نہیں ملا اور اب اجازت ناموں کے لیے وقت قلیل ہے لہذا ان مظاہروں کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

سیاسی جماعت کے رہنما ہونے کے ناطے کسی دوسرے ملک میں اپنے پارٹی کارکنوں اور حامی عوام سے مخاطب ہونا عمران خان کی خواہش ضرور ہو سکتی ہے جسے تکمیل تک پہنچانے کے لیے ان کے حامی پاکستانی نژاد امریکی بھرپور جوش کا مظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔ لیکن کیا وزیر اعظم عمران خان یہ بات جانتے ہیں کہ اس جوش اور محبت کے بدلے امریکن پاکستانی ان سے کیا چاہتے ہیں؟

عنبر جمیل کہتی ہیں کہ "ایسی قوموں سے تعلق رکھنے والے امریکی جن کے امریکہ سے تعلقات بہتر ہیں اور جہاں معاشی ترقی ہوئی ہے وہ عملی کردار ادا کر رہے ہیں، اسرائیلی، بھارتی یہاں تک کہ فلیپینو امریکن بھی اپنے ملک اور امریکہ دونوں میں پالیسی میکرز کو متعلقہ اور مطلوبہ ذرائع مہیا کر رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان میں تعلیم صحت اور معیشت کی پالیسیوں کے لیے ایسے لوگوں کو اہمیت دی جائے جو امریکہ میں پلے بڑھے ہیں مگر پاکستان کی ثقافت اور حالات سے بخوبی واقف ہیں تو یہ مددگار ہو گا اور اس کے لیے اب ہم پاکستانی امریکیوں کو اور زیادہ تیزی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔"

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ عمران خان نے گزشتہ سال ایسے ہی ایک امریکن پاکستانی عاطف میاں کو اس وقت اپنی معاشی مشاورتی کونسل سے برخاست کر دیا گیا تھا جب ان کے عقیدے پر سوال اٹھنے لگے۔ اور بعد میں عاطف میاں نے میڈیا سے کہا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے عہدہ چھوڑا ہے۔

اگرچہ بائیس جولائی کو وائٹ ہاوس میں عمران خان کی ملاقات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے طے ہے لیکن ناقدین یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی حکومت اس وقت امریکہ میں پی ٹی آئی کا جلسہ کروانے پر زیادہ متوجہ نظر آتی ہے۔

XS
SM
MD
LG