بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی پاکستان میں نمائندہ ٹریسا ڈبن سنچے نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی تیسری لہر کے منفی اثرات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی قرضوں کی ادائیگی موخر کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے باعث معیشت پر منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو فنڈز کی مزید فراہمی بھی کی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب گیلپ پاکستان کے ایک سروے میں 12 فی صد شہریوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سات دنوں میں وہ اپنی گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لیے کم قیمت اور کم پسندیدہ اشیا کا انتخاب کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ جب کہ 21 فی صد شہری دوستوں اور رشتے داروں کی مالی مدد سے اپنی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔
اسلام آباد کے تھنک ٹینک ایس ڈی پی آئی کے زیر اہتمام آن لان مذاکرے (ویبینار) سے خطاب کرتے ہوئے آئی ایم ایف کی پاکستان میں نمائندہ ٹریسا ڈبن سنچے نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس اصلاحات چاہتے ہیں۔ تاہم ٹیکس آمدن بڑھانے کے لیے کرونا وائرس ٹیکس اور کرونا کے اخراجات کے لیے ویلتھ ٹیکس لگانا یا نہ لگانا پارلیمان کا کام ہے۔
اس سے قبل بھی آئی ایم ایف نے کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی میں ایک سال کی چھوٹ دی تھی۔
کرونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران عالمی ادارے نے پاکستان کو وبا سے نمٹنے کے لیے ایک ارب 40 کروڑ ڈالرز کا اضافی قرض بھی دیا تھا۔
نمائندہ آئی ایم ایف ٹریسا ڈبن سنچے نے کہا کہ پاکستان کے مرکزی بینک کی خود مختاری کے حوالے سے عالمی ادارے نے ہدایات نہیں دیں۔
پاکستان کی وفاقی کابینہ نے گزشتہ ماہ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے حوالے سے ایک مسودے کی منظوری دی تھی جسے حکومتی ناقدین نے آئی ایم ایف کی شرائط قرار دیا تھا۔
ٹریسا ڈبن نے کہا کہ کرونا سے پہلے پاکستان کی معیشت مستحکم ہو رہی تھی اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اہداف پر عمل درآمد بھی ہو رہا تھا۔ تاہم ان کے بقول پاکستان کے موجودہ قرضے اور حکومتی گارنٹیز معیشت کے 92.8 فی صد تک پہنچ چکے ہیں جو کہ تشویشناک بات ہے۔
آئی ایم ایف نے گزشتہ ماہ ہی پاکستان کو قرض کی فراہمی کی بحالی کی تھی جو کہ گزشتہ سال اپریل سے پروگرام کی شرائط پر خاص کارکردگی نہ دیکھانے پر روک دیا گیا تھا۔
آئی ایم ایف نمائندہ کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کے باعث غیر یقینی عالمی حالات پاکستان کے لیے چیلنج ہیں۔ اور پاکستان کو ٹیکس کی چھوٹ محدود کرنی ہو گی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت مستحکم اور غریب طبقے کی مدد کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ توانائی کے نقصانات کم کرنا پاکستان کی معیشت پر بوجھ کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے۔
آئی ایم ایف کی قرض فراہمی کی شرائط پر بات کرتے ہوئے ٹریسا ڈربن نے کہا کہ پاکستان کو پانچ بنیادوں پر مشتمل پیکیج دیا گیا ہے۔ اس پروگرام کی پہلی بنیاد معاشی نظم و ضبط لانا ہے جس کے تحت ٹیکس چوری کو روکتے ہوئے محصولات کو بڑھانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مانیٹری پالیسی میں ایکسچینج ریٹ میں استحکام دوسری جب کہ زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنا اور منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لیے مزید اقدامات پروگرام کی تیسری بنیاد ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ توانائی کی اصلاحات پاکستان کے لیے چوتھی بنیاد ہے جس کے تحت گردشی قرضوں کا خاتمہ اور بجلی کی قیمت کو بڑھانا ہوگا۔
آئی ایم ایف کی نمائندہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں ادارہ جاتی اصلاحات پانچویں بنیاد ہے۔
پاکستان کی حکومت کی ان شرائط پر خاص پیش رفت نہ دیکھائے جانے پر آئی ایم ایف نے گزشتہ سال اپریل میں پاکستان کو قرضوں کی ادائیگیاں روک دی تھی جسے ایک سال کے بعد گزشتہ ماہ بحال کیا گیا تھا۔
معاشی امور کے ماہر اکبر زیدی کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے کرونا کی پہلی لہر میں بھی قرضوں کی ادائیگی نہ صرف مؤخر کی تھی بلکہ اضافی قرض بھی دیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کی ابتر حالت کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف پروگرام مؤخر نہیں بلکہ ختم ہو جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی ادارے کا یہ عارضی ریلیف ہو گا جس سے پاکستان کو خراب معاشی حالات میں کچھ سانس لینے کا موقع ملے گا۔
اکبر زیدی کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کو شرائط میں نرمی بھی لانی ہوگی تاکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس جیسے پروگرام کے لیے حکومت مزید فنڈز فراہم کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ عام حالات میں آئی ایم ایف حکومتی اخراجات کو کم کرنے اور محصولات بڑھانے پر کافی سخت رویہ رکھتا ہے۔ تاہم اس وقت معیشت تباہ حال ہے ایسے میں لوگوں کی مالی مدد اور کاروباری افراد کو سہولیات دینا ہوں گی۔
یاد رہے کہ آئی ایم ایف نے جولائی 2019 میں پاکستان کو 39 ماہ کے پروگرام کے تحت چھ ارب ڈالرکا قرضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
گیلپ پاکستان کے ایک سروے میں چاروں صوبوں کی خواتین و مردوں سے پوچھا گیا کہ آپ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حالیہ دنوں میں اضافی طور پر کیا کر رہے ہیں؟ اس کے جواب میں 17 فی صد نے کہا کہ وہ اپنی آمدن میں اضافے کے لیے متبادل ذرائع تلاش کر رہے ہیں اور 12 فی صد کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے کھانے کی ضروریات کو محدود کر دیا ہے۔
سروے میں چار فی صد نے کہا کہ وہ اپنی جمع پونجی خرچ کرکے گزر بسر کر رہے ہیں۔ جب کہ چھ فی صد افراد اپنا گھریلو سامان بیچ کر ضروریات پوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک فی صد افراد نے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حکومت یا نجی بینکوں سے قرض حاصل کیا۔ جب کہ 50 فی صد عوام کو اپنی ضروریات کو پورا کرنے میں ان میں سے کوئی عمل اختیار نہیں کرنا پڑا۔