انجم علی کراچی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) سیکٹر کے شعبے سے وابستہ ہیں اور دنیا بھر میں پھیلے اپنے مختلف صارفین کو سافٹ ویئرز بنا کر پاکستان کے لیے قیمتی زرِمبادلہ کماتے ہیں۔
سال 2005 میں قائم کی گئی ان کی چھوٹی سی کمپنی نے 15 سال میں خوب ترقی کی ہے اور اب ان کا کاروبار 27 ممالک میں پھیلا ہوا ہے جب کہ معقول آمدنی سے اب وہ اپنے کاروبار میں مزید وسعت کا سوچ رہے ہیں۔
لیکن انجم علی کو اپنے اس کاروبار کے لیے پہلے ٹیکس سے استثنیٰ حاصل تھا اور اس کی شرط صرف یہ تھی کہ اُن کی فرم کی 80 فی صد آمدنی کو پاکستان منتقل کیا جائے۔ مگر صدرِ مملکت کی جانب سے 24 مارچ کو جاری کیے گئے انکم ٹیکس آرڈیننس میں ترامیم سے ان کی کمپنی کو بھی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔
اگرچہ آرڈیننس میں آئی ٹی سیکٹر سمیت کئی شعبوں سے وابستہ صنعتوں کو 100 فی صد ٹیکس کریڈٹ (یعنی ایک خاص مدت تک ٹیکس نہ ادا کر کے اسے حکومت سے حاصل کیا گیا قرضہ تصور کیا جائے) کی سہولت بھی حاصل ہو گی لیکن انجم علی گزشتہ چند سالوں اور بالخصوص کرونا وبا کے دوران تیزی سے ترقی کرتی ہوئی اس صنعت کے لیے ٹیکس چھوٹ ختم کرنا نقصان دہ قرار دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ اس شعبے کی طرح صوبۂ سندھ میں کوئلے کی مائننگ کرکے اس سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کو سپلائی کرنا، ویب ڈیزائننگ، ویب ڈویلپمنٹ، نیٹ ورک ڈیزائن، سسٹم انٹی گریشن، کال سینٹرز، ریموٹ مانیٹرنگ، اکاؤنٹنگ سروسز، ٹیلی میڈیسن سینٹرز، انشورنس کلیمز اور مقامی سطح پر تیار کردہ ٹی وی پروگرامز کو برآمد کرنے کی آمدنی کو بھی ٹیکس استثنیٰ سے ٹیکس کریڈٹ میں تبدیل کیا گیا ہے۔
یہ سہولت بھی انہی افراد کو حاصل ہو گی جو پہلے سے ٹیکس ریٹرنز باقاعدگی سے جمع کراتے ہیں۔
اسی طرح کئی فلاحی و مذہبی تنظیموں، ٹرسٹ، ویلفیئر اداروں، غیر منافع بخش کمپنیوں، تعلیمی مقاصد کے لیے قائم وقف بورڈز اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو بھی انکم ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔
ایسے 62 اداروں کو عطیات، رضاکارانہ فنڈنگ، پراپرٹی سے حاصل ہونے والی آمدنی، حکومتی سیکیورٹیز میں کی جانے والی سرمایہ کاری، بینک سے حاصل منافع اور مختلف مد میں کیے جانے والے کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی پر انکم ٹیکس کریڈٹ کے نیٹ میں لایا گیا ہے۔
بجلی مہنگی کرنے کا اختیار نیپرا کے ساتھ حکومت کے پاس بھی
اسی طرح نیپرا ایکٹ میں ترمیم کر کے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اختیار نیپرا کے ساتھ حکومت کو بھی حاصل ہو گیا ہے۔ جس کا مقصد 2023 تک مرحلہ وار بجلی کی قیمتوں میں 34 فی صد اضافہ کرکے توانائی کے شعبے میں اس وقت جس نقصان کا سامنا ہے اسے پورا کیا جانا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس مد سے 700 ارب روپے اضافی ریونیو اکھٹا کیا جا سکے گا۔
کیا عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ پڑے گا؟
ٹیکس امور اور معاشی ماہرین کی جانب سے اس پر ملا جلا ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔ ٹیکس امور کے ماہر علی رحیم کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیکس سے استثنیٰ کو تو پہلے ہی ختم کر دینا چاہیے تھا لیکن اس میں بلاوجہ تاخیر کی گئی۔
اُن کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض شعبوں اور اداروں کا ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے سے ان کے کاروبار کی لاگت تو بڑھے گی اور اس کا اثر لامحالہ عوام پر بھی پڑے گا۔
'ملک میں ٹیکس سے چھوٹ کا کلچر ختم کرنا ہو گا'
اُدھر ملک کے سب سے بڑے صنعتی اور تجارتی شہر کراچی کے چیمبر آف کامرس کے صدر شارق وہرہ ٹیکس استثنیٰ کو ٹیکس کریڈٹ میں تبدیلی کو سراہتے نظر آتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ اس لحاظ سے اچھا اقدام ہے کہ ٹیکس استثنیٰ سے عام تاثر یہ ملتا ہے کہ یہ صرف حکومت کے منظور نظر افراد اور ان کے اداروں ہی کو ملتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی ایک سیکٹر کو ٹیکس ادائیگی سے مکمل چھوٹ اور دوسرے سیکٹر پر زیادہ ٹیکسز کا بوجھ لادنا مناسب نہیں۔
اُن کے بقول ٹیکس چھوٹ سے معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ عام طور پر انکم ٹیکس کی چھوٹ ملنے والی انڈسٹریز نے کبھی یہ فائدہ صارف کو منتقل نہیں کیا، اس لیے ان کے خیال میں اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
'بجلی کی قیمتیں مزید بڑھانے سے مہنگائی مزید بڑھے گی'
لیکن بجلی کی قیمتیں بڑھانے کے حکومت کے پاس وسیع اختیارات ان کے لیے بھی تشویش کا باعث ہیں۔ صدر کراچی چیمبر آف کامرس کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس سے پہلے بھی یہ اختیار نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی استعمال کرتی تھی جو حکومت ہی کا ذیلی ادارہ تھا، لیکن اب حکومت براہ راست بھی یہ اختیار استعمال کرے گی تو اس کا صنعتوں پر بہت برا اثر پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ صنعتوں کا پہیہ چلنے سے توانائی کا براہ راست تعلق ہے۔ اور اگر آپ بجلی کی قیمتیں بڑھائیں گے تو یقینی طور پر اس کا اثر لاگت تیار مصنوعات کی لاگت پر پڑے گا جس کا اثر مہنگائی کی صورت میں سامنے آئے گا۔
شارق وہرہ کے مطابق پاکستان میں اس وقت بجلی کے ریٹس خطے میں پہلے ہی بہت زیادہ ہیں۔ اور اگر مزید بجلی کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو پھر باہر سے اشیا منگوانا سستا ہوگا بجائے اس کے کہ مقامی کارخانوں میں مصنوعات تیار ہوں۔
کیا ایف بی آر زیادہ ٹیکس جمع کرنے میں ناکام رہا؟
ٹیکس ماہر علی رحیم نے ایک اور معاملے کی جانب توجہ دلائی کہ ٹیکس جمع کرنے کے لیے حکومت نے اب تک فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو مضبوط نہیں کیا۔
اُن کے بقول اس میں کرپشن کا خاتمہ حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، اور ٹیکس آفیسرز کے صوابدیدی اختیارات کو کم کرنا ہو گا۔
علی رحیم کہتے ہیں کہ ٹیکس نیٹ میں طاقت ور لوگوں کو لانا ہو گا اور انہیں بھی احتساب کے شکنجے میں رکھا جائے تب جا کر ہی صحیح معنوں میں ٹیکس کلیکشن میں بہتری لائی جاسکے گی۔
صدر کراچی چیمبر آف کامرس کا بھی کہنا ہے کہ ایف بی آر اب تک ٹیکس نیٹ میں اضافے کے حوالے سے ایک غیر مؤثر ادارہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیکس کلیکشن بہت ہی کم رہی ہے اور اس میں ایک تفصیلی آپریشن کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس مشکل صورتِ حال سے نکلنے کے لیے حکومت کے پاس بہت سے طریقے موجود ہیں۔ اس کے لیے طرزِ حکمرانی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، اگر آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر ان شرائط پر عمل واقعی ضروری ہے تو حکومت اپنی استعداد دوسرے شعبوں میں بڑھا کر عوام اور تاجروں کو اس جانب سے پہنچنے والے نقصانات کی تلافی کرسکتی ہے۔
دوسری جانب سرکاری ٹی وی کو انٹرویو میں وزیرِ اعظم کے مشیر برائے خزانہ اور محصولات عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ ملک کے اندر اصلاحات اور اقتصادی بحالی کی وجہ سے دنیا میں اعتماد بڑھے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان اقدامات کی روشنی میں ملکی شرح نمو میں تین فی صد کی رفتار سے اضافہ متوقع ہے۔