کراچی —
صوبہٴخیبر پختونخواہ میں غیر قانونی افغان سم کارڈز کی خرید و فروخت پر دفعہ 144 کے تحت پابندی لگا دی گئی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ دفعہ 144کے نفاذ سے اغوا برائے تاوان و بھتہ خوری کی وارداتوں پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔
ڈپٹی کمشنر پشاور سید ظہیر الاسلام کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دفعہ 144 فی الحال ایک ماہ کے لئے لگائی گئی ہے۔ لیکن، اس میں ضرورت کے مطابق توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔
اعلامیے کے مطابق مذکورہ دفعہ کی خلاف ورزی کی صورت میں دفعہ 188کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
خیبر پختونخواہ میں 40ہزار سے زائد سم کارڈز
غالباً اور امکانی طور پر یہ اقدام اس تحقیقاتی رپورٹ کے بعد اٹھایا گیا ہے جو جمعرات کو قومی احتساب بیورو نے پشاور ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی تھی اور جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے چند علاقوں میں افغانستان کی کمپنیوں کے ذریعے آپریٹ ہونے والے 40ہزار سم کارڈز کام کررہے ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس اسد اللہ خان چمکنی پر مشتمل دورکنی بینچ غیر قانونی افغان سم کارڈز کے استعمال پر ازخود نوٹس کی سماعت کر رہا ہے۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ افغان سمز انٹرنیشنل رومنگ کے ذریعے آپریٹ کی جارہی ہیں اور ان کا زیادہ تر استعمال دہشت گردی، بھتہ خوری اور دیگر سنگین جرائم کی وارداتوں میں کیا جارہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رومنگ سروسز کے لئے پاکستان میں کام کرنے والی ٹیلی فون کمپنیز کے پاس کوئی تحریری معاہدہ موجود نہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اس سے قبل پانچ سالوں کے دوران ڈھائی کروڑ سے زائد غیر رجسٹر سمز بلاک کر چکی ہے۔ پاکستان میں موبائل سمز کی خریداری کے لئے فنگر پرنٹ دینا ضروری ہوں گے۔
ڈپٹی کمشنر پشاور سید ظہیر الاسلام کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دفعہ 144 فی الحال ایک ماہ کے لئے لگائی گئی ہے۔ لیکن، اس میں ضرورت کے مطابق توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔
اعلامیے کے مطابق مذکورہ دفعہ کی خلاف ورزی کی صورت میں دفعہ 188کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
خیبر پختونخواہ میں 40ہزار سے زائد سم کارڈز
غالباً اور امکانی طور پر یہ اقدام اس تحقیقاتی رپورٹ کے بعد اٹھایا گیا ہے جو جمعرات کو قومی احتساب بیورو نے پشاور ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی تھی اور جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے چند علاقوں میں افغانستان کی کمپنیوں کے ذریعے آپریٹ ہونے والے 40ہزار سم کارڈز کام کررہے ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس اسد اللہ خان چمکنی پر مشتمل دورکنی بینچ غیر قانونی افغان سم کارڈز کے استعمال پر ازخود نوٹس کی سماعت کر رہا ہے۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ افغان سمز انٹرنیشنل رومنگ کے ذریعے آپریٹ کی جارہی ہیں اور ان کا زیادہ تر استعمال دہشت گردی، بھتہ خوری اور دیگر سنگین جرائم کی وارداتوں میں کیا جارہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رومنگ سروسز کے لئے پاکستان میں کام کرنے والی ٹیلی فون کمپنیز کے پاس کوئی تحریری معاہدہ موجود نہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اس سے قبل پانچ سالوں کے دوران ڈھائی کروڑ سے زائد غیر رجسٹر سمز بلاک کر چکی ہے۔ پاکستان میں موبائل سمز کی خریداری کے لئے فنگر پرنٹ دینا ضروری ہوں گے۔