اسلام آباد ہائی کورٹ نے گھریلو ملازمہ طیبہ تشدد کیس میں سابق جج راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ کو سنائی جانے والی ایک، ایک سال قید اور 50، 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا معطل کردی ہے۔
طیبہ تشدد کیس میں سزا پانے والے راجہ خرم علی خان اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کے فیصلے کو ڈویژن بنچ کے سامنے چیلنج کیا تھا جس کی سماعت جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل بینچ نے پیر کو کی۔
دورانِ سماعت ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے سنگل بینچ کی جانب سے سنائی گئی سزا معطل کرنے کا حکم دیا اور سماعت مئی کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 27 مارچ 2018ء کو طیبہ تشدد کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جو 17 اپريل کو سنایا گیا تھا۔
مقدمے میں مجموعی طور پر 19 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے تھے جن میں 11 سرکاری جبکہ طیبہ کے والدین سمیت آٹھ عام شہری شامل تھے۔
فیصلہ سنائے جانے کے فوراً بعد سابق جج راجا خرم علی خان نے ضمانت کے لیے درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے لہذا انہیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق جج اور ان کی اہلیہ کی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے تک درخواستِ ضمانت منظور کرلی تھی اور ساتھ ہی انہیں ایک ہفتے کے اندر اپیل دائر کرنے کی ہدایت بھی کی تھی۔
اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر میں طیبہ نامی کم سن گھریلو ملازمہ پر تشدد کا واقعہ 27 دسمبر 2016ء کو منظرِ عام پر آیا تھا۔
پولیس نے 29 دسمبر کو جج راجا خرم اور ان کی اہلیہ کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا اور دونوں افراد کے خلاف تھانہ آئی نائن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ تاہم 3 مارچ 2017ء کو طیبہ کے والدین نے راجا خرم اور ان کی اہلیہ کو معاف کردیا تھا۔
اس صلح نامے کی خبر نشر ہونے کے بعد چیف جسٹس نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا اور رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو حکم دیا تھا کہ وہ 24 گھنٹوں کے اندر اندر معاملے کی تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔
8 جنوری 2017ء کو سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس نے طیبہ کو بازیاب کرا کے عدالت میں پیش کیا تھا جس کے بعد عدالتی حکم پر 12 جنوری کو جج راجا خرم کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔
بعد ازاں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کیس کا ٹرائل اسلام آباد ہائی کورٹ بھیج دیا تھا جہاں متعدد سماعتوں کے بعد 16 مئی 2017ء کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔