رسائی کے لنکس

اسلام آباد ہائی کورٹ کا پرویز الہٰی کو رہا کرنے کا حکم، بیان نہ دینے کی ہدایت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریکِ انصاف کے صدر چوہدری پرویز الہٰی کی نظر بندی کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے منگل کو پی ٹی آئی کے رہنما کی ایم پی او کے تحت نظر بندی کے احکامات کو کالعدم قرار دینے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔

اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے گزشتہ ہفتے تھری ایم پی او کے تحت سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی نظر بندی کے احکامات جاری کیے تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران پرویز الہی کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے گزشتہ ہفتے ان کے موکل کو رہا کرنے اور مزید کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم اسلام آباد پولیس نے عدالتی احکامات کے خلاف پرویز الہٰی کو حراست میں لیا اور تھری ایم پی او کے تحت نظر بند کر دیا۔

وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پرویز الہٰی تین ماہ سے جیل میں ہیں، وہ کیسے نقصِ امن کا سبب بن سکتے ہیں؟

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے استفسار کیا کہ پرویز الہٰی کو پہلی بار کب گرفتار کیا گیا تھا؟ جس پر ان کے وکیل نے بتایا کہ پرویز الہٰی کو ابتدائی طور پر یکم جون کو گرفتار کیا گیا تھا۔

پرویز الہٰی کے وکیل کا کہنا تھا کہ سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب تین ماہ سے مختلف مقدمات میں گرفتار رہے ہیں، جن مقدمات میں گرفتار کیا گیا اس میں عدالت ڈسچارج کر چکی ہے۔

عدالت کی ہدایت پر پرویز الہٰی کے وکیل نے تھری ایم پی او کا آرڈر پڑھا اور کہا کہ ان کے موکل کے خلاف اسلام آباد میں اس وقت کوئی مقدمہ درج نہیں ہے۔ گزشتہ چھ یا سات ماہ میں وہ اسلام آباد آئے ہی نہیں ہیں جب کہ پرویز الہٰی نے چار ماہ سے کوئی بیان تک نہیں دیا۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری کا کہنا تھا کہ کیا اسلام آباد میں کوئی ہنگامہ آرائی یا کوئی جلسہ جلوس کیا تھا؟ جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ پرویز الہیٰ نے وفاقی دارالحکومت میں کوئی جلسہ، جلوس یا کوئی ہنگامہ آرائی کبھی نہیں کی۔انہیں گزشتہ ہفتے لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کے تحت رہا کیا گیا تو انہیں پولیس کی حراست سے چھین لیا گیا۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ ایم پی او کے آرڈر میں لکھا گیا کہ پرویز الہٰی نے کارکنان کو مشتعل کیا۔اس پر پرویز الہٰی کے وکیل نے شہریار آفریدی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شہریار آفریدی کے خلاف اسی قسم کا احکامات کے اجرا پر ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) اسلام آباد کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔

پرویز الہٰی کی لاہور سے اسلام آباد پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے دیکھا ہوگا کہ کیسے سادہ لباس میں ملبوس اہلکار انہیں اٹھا کر گاڑی میں ڈال رہے ہیں۔

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ میں توہینِ عدالت کی درخواست پر اسلام آباد کی پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) کو نوٹس جاری کیا گیا ہے جب کہ پیر کو ہی لاہور ہائی کورٹ نے مجسٹریٹ کے ذریعے پرویز الہٰی کو بازیاب کرانے کا حکم دیا تھا۔

ان کے بقول اب عدالت کے حکم کو فرسٹریٹ کرنے کے لیے پرویز الٰہی کو اٹک جیل سے پولیس لائنز منتقل کیا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ پہلے ہی شہریار آفریدی کیس میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ایم پی او آرڈرز کو کالعدم قرار دے چکی اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کی۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے پھر اسی طرح کا ایم پی او آرڈر جاری کیا۔ پرویز الہٰی کے وکیل نے سوال اٹھایا کہ کیا مجسٹریٹ اتنا طاقت ور ہو گیا ہے؟

بعد ازاں سماعت مکمل ہونے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے پرویز الہٰی کی تھری ایم پی او کے تحت نظر بندی کے احکامات کو معطل کر دیا۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے پرویز الہٰی کو آئندہ سماعت پر عدالت کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت کی جب کہ عدالت نے ڈی سی اسلام آباد کو آئندہ منگل کے لیے نوٹس جاری کر دیا۔

عدالت نے پرویز الہٰی کو آئندہ سماعت تک کسی بھی قسم کا بیان دینے سے بھی روک دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG